ہفتہ، 15 اپریل، 2017

آیت اللہ شریعتمداری – زندان ولایت فقیہ میں جان دینے والا پہلا مرجع تقلید

آیت اللہ شریعتمداری کا شمار عالم تشیع کے مشہور اور نامور مراجع تقلید میں ہوتا ہے۔ 1961ء میں آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد آیت اللہ شریعتمداری کا شمار عالم تشیع کے تین نامور مراجع تقلید میں ہونے لگا اور پوری دنیا میں ان کے مقلدین کی تعداد بہت زیادہ ہوگئی۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 1970ء کی دہائی میں تقریباً ایک کروڑ شیعہ مسلمان ان کی تقلید کرتے تھے۔ آیت اللہ منتظری نے بھی اپنے ایک انٹرویو میں اس مطلب کی طرف اشارہ کیا ہے۔

حوزہ علمیہ قم میں ان کی شہرت اور محبوبیت کا اندازہ قائم مقام رہبری آیت اللہ منتظری کی ڈائری کے اس سطر سے لگایا جا سکتا ہے کہ جس زمانے آیت اللہ خمینی کو کوئی نہیں جانتا تھا کثیر تعداد میں طلاب اور فاضل علماء آیت اللہ شریعتمداری کے درسوں میں شرکت کرتے تھے اور کسب فیض کرتے تھے۔  آیت اللہ منتظری نے اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے:

"آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد، قم میں آیت اللہ شریعتمداری، آیت اللہ گلپائیگانی اور کسی حد تک آیت اللہ مرعشی کے مرید پائے جاتے تھے، مگر آیت اللہ خمینی کا کوئی نہیں تھا۔"

آیت اللہ محمد شریف رازی کی روایت کے مطابق حوزہ علمیہ قم کے علماء و فضلا کی کثیر تعداد آیت اللہ شریعتمداری کی درسوں میں شرکت کرتے تھے۔ وہ لکھتے ہیں:

"آنجناب (آیت اللہ شریعتمداری) کے درس خارج کی کلاسوں کا شمار قم کے پُرہجوم ترین درسوں میں  ہوتا ہے جس نے ایسے برجستہ شاگردوں اور بزرگوار اساتید کی تربیت کی ہے جن میں سے ہر کوئی دورِ حاضر کا ایک قابل فخر عالم دین ہے اور براستی آنجناب نے حوزہ علمیہ قم کی محافظت اور دیکھ بھال میں بڑا کردار ادا کیا ہے اور اسی طرح آپ دیگر چھوٹے شہروں کے حوزہ ہائے علمیہ پر بھی خصوصی توجہ دیتے ہیں اور ان شہروں میں موجود دینی علوم کے مدرسوں کو شہریہ بھی دیتے ہیں۔ آنجناب نہ صرف ایران میں مرجعیت رکھتے ہیں بلکہ پاکستان، ہندوستان، لبنان، کویت، خلیج فارس کے عرب ممالک اور ترکی میں بھی کثیر تعداد میں لوگ آپ کی تقلید کرتے ہیں۔"

حوزہ علمیہ کی بانی آیت اللہ شیخ عبدالکریم حائری کے فرزند آیت اللہ مھدی حائری نے لکھا ہے:

"(آیت اللہ بروجردی کی وفات کے بعد علمائے حوزہ علمیہ میں آیت اللہ شریعتمداری کیا مقام رکھتے تھے؟) شریعتمداری ان مراجع تقلید میں سے تھا جن کے مقلدین کی تعداد اتفاق سے باقی سب سے بہت زیادہ تھی: آقائے گلپائیگانی سے زیادہ، آیت اللہ خمینی سے زیادہ۔ قابل مقائسہ ہی نہیں تھا۔۔۔ اور درجہ اول کے مراجع میں ان کا شمار ہوتا تھا۔"

آیت اللہ شریعتمداری نہ صرف دینی علوم پر توجہ رکھتے تھے بلکہ دنیاوی علوم کا حصول بھی طلاب کے لئے لازمی جانتے تھے۔ اسی بنا پر انہوں نے قم میں "دارالتبلیغ الاسلامی" کے نام سے ایک اعلیٰ درجے کے دینی مدرسے کی بنیاد رکھی جس میں داخلہ لینے والے طلاب کے لئے لازمی تھا کہ وہ انگریزی زبان سیکھیں اور ماڈرن علوم سے آشنائی حاصل کریں۔

آیت اللہ خمینی کی جان بخشی کے لیے جدوجہد

آیت اللہ شریعتمداری کی شہرت اور عزت و احترام کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جب شاہ کی حکومت نے آیت اللہ خمینی کو ان کی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور یہ بات زبان زد عام و خاص ہوگئی کہ ملک میں بدامنی پھیلانے کے جرم میں بادشاہ آقائے خمینی پر مقدمہ چلا کر انہیں پھانسی دینا چاہتا ہے تو ایسے نازک موقع پر آیت اللہ شریعتمداری سرگرم ہوجاتے ہیں اور آیت اللہ خمینی کی جان بخشی کے لئے جدوجہد میں لگ جاتے ہیں۔

اس سلسلے میں آیت اللہ خمینی کے بڑے بھائی آیت اللہ پسندیدہ کے اُس "شکایت نامہ" سے چند سطروں کا حوالہ دینا دلچسپی سے خالی نہ ہوگا جو انہوں نے انقلاب کے بعد اپنے چھوٹے بھائی آیت اللہ خمینی کے نام لکھا۔ اس شکایت نامے میں وہ آیت اللہ خمینی کو اسی بات کی یاددہانی کراتے ہوئے لکھتے ہیں کہ ہم نے کس طرح قم کے مراجع کے آگے ہاتھ جوڑا اور آیت اللہ شریعتمداری جیسے بزرگوار سادات کی جدوجہد سے آپ کی جان بخشی ہوگئی:

"آپ کس طرح مسندِ ولایت پر براجمان  ہیں جبکہ ۔۔۔ بدعہد لوگوں کو طاقت و مقام عنایت کرتے ہو درحالیکہ ساداتِ عالی قدر، سبطِ افتخار ازلی تشیع، حاج آقا حسن قمی، حاج آقا حسین قمی طاب ثراہ  اور آقائے حاج سید کاظم شریعتمداری، شیعیانِ مولا علی کے برحق مرجع کو انتہائی حقارت کے ساتھ نظربند کرتے ہو اور ان سے مرجعیت چھین لیتے ہو۔ یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے بیس سال پہلے میرے اشک و نالوں کی وجہ سے آپ کی مرجعیت پر مہرِ تصدیق ثبت کرکے بادشاہ کوبھیجا تھا تاکہ آپ اہانت آمیز برتاؤ اور اذیت و آزار سے بچ جائیں۔" (تحریر شدہ 25 شوال 1403 ہجری قمری)

یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس دور میں ملک کا آئین حکومت کو اس بات کی اجازت نہیں دیتا تھا کہ وہ ایک مرجع تقلید پر حکومتی عدالت میں مقدمہ چلائے، مگر مشکل یہ تھی کہ آقائے خمینی اس زمانے میں مرجع تقلید نہیں تھے۔ آیت اللہ خمینی کی جان صرف اس صورت میں بچ سکتی تھی اگر بعض دیگر مراجع تقلید آیت اللہ خمینی کا تعارف ایک مرجع تقلید کے طور پر کرتے۔

آیت اللہ منتظری نے اپنی یادداشتوں میں اس حوالے سے لکھا ہے:

"چونکہ یہ بات چل رہی تھی کہ بادشاہ آیت اللہ خمینی پر مقدمہ چلانا چاہتا ہے، مگر اس زمانے کے آئین کے مطابق ایک مرجع تقلید پر مقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا۔ اس بنا پر حضرات آیات آقائے شریعتمداری، آقائے شیخ میلانی، آقائے مرعشی نجفی اور آقائے شیخ محمد تقی آملی نے ایک تحریر تیار کی جس میں آقائے خمینی کو مرجع تقلید کے عنوان سے پیش کیا گیا تاکہ وہ سزائے موت سے بچ سکے" (آیت اللہ منتظری کی ڈائری ص: 238)

خود آیت اللہ شریعتمداری اس حوالے سے سے لکھتے ہیں:

"ہم اسی وقت عازم تہران ہوئے اور شاہ عبدالعظیم میں تمام شہروں کے علماء کو اکٹھا کیا اور مرحوم آیت اللہ میلانی سے جو کہ مشہد میں تشریف رکھتے تھے، گزارش کی کہ وہ بھی وہاں تشریف لے آئے۔ چونکہ اس وقت حکومت آیت اللہ خمینی پر مقدمہ چلانے اور ان کے ساتھ سخت برتاؤ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی یہاں تک کہ اخبارات اس وقت سزائے موت کی بات کر رہے تھے، اس وجہ سے ہم نے ضروری سمجھا کہ اس کی روک تھام کی جائے۔ تہران میں ہمارے قیام نے ایک دو مہینے طول پکڑا اور کسی حد تک وہ باطل سوچ ختم ہوا، ہم نے گیارہ آرٹیکل پر مشتمل ایک اعلانیہ پیش کیا اور حکومت کے تمام دعوؤں کو مسترد کر دیا۔" (روزنامہ اطلاعات: 4 جون 1979ء)

یہ سکے کا وہ رخ تھا جب آیت اللہ شریعتمداری ایک مرجع تقلید کے عنوان سے ایک طاقتور شخصیت ہوا کرتے تھے اور انہوں نے کس طرح بُرے وقت میں آیت اللہ خمینی کا ساتھ دیا اور انہیں حکومت کی طرف سے ملنے والی ممکنہ سزائے موت سے بچانے کے لئے جدوجہد کی جس کے نتیجے میں آقائے خمینی شاہی حکومت کے چنگل سے آزاد ہوا۔ وقت گزرتا رہا اور سکے کا دوسرا رخ اس وقت سامنے آیا جب انقلاب کے بعد آیت اللہ خمینی برسراقتدار آئے۔

حزب اللہ اور حزب الشیطان

انقلاب کے وقت ایران سیاسی میدان میں سرگرم دو بڑی مذہبی سیاسی پارٹیوں میں سے ایک "جمہوری اسلامی" اور دوسری "جمہوری خلق مسلمان" تھی۔ جمہوری اسلامی کی بنیاد رکھنے والے آیت اللہ خمینی کے شاگردان اور خاص لوگ تھے جبکہ جمہوری خلق مسلمان بنانے والے آیت اللہ شریعتمداری کے قریبی لوگ تھے اور ظاہراً ان کی حمایت بھی اس جماعت کو حاصل تھی جوکہ آیت اللہ خمینی کے شاگردوں پر گراں گزرتی تھی۔ رہبر انقلاب کے شاگرد آیت اللہ شریعتمداری کو اپنے استاد کا رقیب سمجھتے تھے اور اعتقاد رکھتے تھے کہ بادشاہ کے ساتھ ان کا طرز تعامل مسالمت آمیز رہا ہے۔ اس پر مستضاد یہ کہ آیت اللہ شریعتمداری بعض حکومتی پالیسیوں  سے اختلاف نظر رکھتے تھے اور ان پر کھلا اعتراض کرتے تھے۔ مثال کے طور پر انہوں نے ایکسپرٹ کونسل، آئین جمہوری اسلامی کے بعض دفعات اور خاص کر ولی فقیہ کے وسیع اختیارات کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ ایک کروڑ شیعہ مسلمانوں کے اس مرجع تقلید کے خلاف جھوٹے پروپیگنڈے کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔

اگرچہ انقلاب اسلامی کی دستاویزات تیار کرنے والوں نے تاریخ میں تحریف کرتے ہوئے عوام کو یہ دھوکہ دینے کی کوشش کی ہے کہ آیت اللہ شریعتمداری "جمہوری اسلامی پارٹی" کے مقابلے میں "خلق مسلمان پارٹی" کی حمایت کرتے تھے، مگر حقیقت اس کے برخلاف نظر آتی ہے۔ اسی زمانے میں مختلف پارٹیوں میں شمولیت کے حوالے سے ہونے والے ایک استفتاء کا انہوں نے جو جواب دیا وہ نہایت واضح ہے:

"اِس پارٹی (جمہوری خلق مسلمان) اور باقی کسی بھی اسلامی پارٹی کا ممبر بننا جوکہ "انجمن روحانیت" کے زیر نظر کام کررہی ہیں، نہ صرف بلامانع ہے بلکہ ایک دینی و قومی فریضہ ہے۔ خداوند متعال تمام اسلامی پارٹیوں کو جمہوری اسلامی ایران کے استحکام کے لئے جدوجہد کرنے کی توفیق عنایت کرے۔"

آیت اللہ شریعتمداری آئین جمہوری اسلامی ایران کے دفعہ نمبر 110 سے متفق نہیں تھے کیونکہ یہ دفعہ ولی فقیہ کو ایسا اختیار دیتا ہے جو عوام کے اختیار کو سلب کرتا ہے اور اسی آئین کے دفعہ نمبر 6 اور 56 سے ٹکراؤ میں ہے۔ وہ خود لکھتے ہیں:

"ہم نے ایکسپرٹ کونسل کے نشستوں کے دوران کئی بار مختلف انٹرویوز کے ذریعے (آئین کے) بعض دفعات کی تصحیح اور تکمیل کے حوالے سے اپنا مطمع نظر بیان کیا ہے۔

۔۔۔دفعہ نمبر 6 اور دفعہ نمبر 56 جوکہ شریعت کے موافق بھی ہیں، عوام کی بالادستی کو یقینی بناتے ہیں، مگر دفعہ 110 عوام کے اختیارات کو قوم سے سلب کرتا ہے اور نتیجتاً دفعہ نمبر 110 باقی دو دفعات یعنی دفعہ 6 اور 56 سے مکمل تضاد میں قرار پاتا ہے۔ اور تضاد بھی ایسا کہ کسی قسم کی تاویل و توجیہہ کے ذریعے اس اختلاف اور تضاد کو رفع نہیں کیا جا سکتا۔ اس تضاد کے علاوہ، آئین میں بعض اور بھی دفعات ایسے ہیں جو کہ قابل اعتراض ہیں۔ اسی طرح، اس میں کچھ دیگر خامیاں اور خرابیاں بھی نظر آتی ہیں جن کی اصلاح ضروری ہے باوجود اس کے کہ وہ اہمیت کے لحاظ سے دوسرے درجے میں قرار پاتے ہیں۔

لیکن جو چیز سب سے اہم ہے وہ دفعہ 110 اور اس کے ذیلی شقوں میں ایسی تبدیلی اور اصلاح ہے جو عوام کی بالادستی کے ساتھ سازگار ہو اور آپس میں تضاد نہ رکھتا ہو۔ لہذا میں کھلے الفاظ میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ جلد از جلد ان نقائص کی طرف توجہ کرکے انہیں دور کیا جائے تو آئین کے باقی دفعات بلامانع ہیں۔"

روزنامہ اطلاعات میں اس اعلانیہ کا شائع ہونا تھا کہ حکومت کے ڈنڈہ بردار انقلابی پریشر گروپوں کو جو کہ پہلے ہی کسی ایسے موقع کے منتظر تھے، اس مرجع تقلید کے بیت پر حملہ آور ہونے کا موقع ملتا ہے اور حکومت کے طرفداروں اور آیت اللہ شریعتمداری کے چاہنے والوں کے درمیان سخت قسم کی کشیدگی پیدا ہوجاتی ہے۔

ان حالات میں بعض علماء اس خیال کے ساتھ کہ اس کشیدگی کی اصلی وجہ "خلق مسلمان پارٹی" اور آیت اللہ شریعتمداری کا اس پارٹی کی حمایت کرنا ہے، اس کشیدگی کو دور کرنے کےلئے آیت اللہ شریعتمداری کو ایک خط لکھتے ہیں جس میں ان سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ وہ "خلق مسلمان پارٹی" کی تحلیل کا اعلان کرکے اس تناؤ اور کشیدگی کو ختم کرے۔ آیت اللہ شریعتمداری خط کا جواب ان الفاظ میں دیتے ہیں:

"جو نکتہ آپ آقایان محترم سے کہنا چاہتا ہوں یہ ہے کہ حکومت نے جو طرز عمل اپنا رکھا ہے اس کی موجودگی میں ضروری نہیں ہے کہ پارٹی کے بانیان پارٹی کو تحلیل کریں بلکہ حکومت خود تمام پارٹیوں پر امریکی، صیہونیستی اور ضد اسلام کا مہر لگا کر انہیں تحلیل کرے گی۔ لہذا اس حوالے سے آپ کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔"

کچھ دنوں بعد اپنی ایک تقریر میں آیت اللہ شریعتمداری نے کہا:

آپ لوگ ہم پر الزام تراشی کرتے ہیں، جو آپ کا دل کرتا ہے ہم اور ہمارے دوستوں کے خلاف لکھتے اور شائع کرتے ہیں لیکن ہمیں "آہ" تک کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ ہم نے آخر کونسا گناہ کیا ہے کہ اس حد تک تہمت و الزام کے مستحق قرار پائے ہیں؟ میں وہی شخص ہو جو کچھ مہینے پہلے تھا۔  صرف یہی ہوا ہے کہ اپنے شرعی فریضے پر عمل کرتے ہوئے، آئین کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا ہے۔ آخر ایسا برتاؤ اور آزادی بیان پر ایسا قدغن کہ ایک مرجع تقلید تک اپنے موقف کا اظہار نہ کر سکے! یہ تو وہی چیز ہے جس کے خلاف ہم نے جہاد کیا تھا۔"

جھوٹا الزام، جعلی کیس اور جبری اعتراف

حکومت جو کہ اس ہردلعزیز مرجع تقلید کو منظر عام سے حذف کرنے کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کر رہی تھی، اس دفعہ قطب زادہ کیس کو بہانہ بناکر ان پر حملہ آور ہوتی ہے۔ صادق قطب زادہ جوکہ آیت اللہ خمینی کا مصاحب خاص تھا، فرانس سے ہی آیت اللہ خمینی کے ساتھ وطن واپس آیا تھا اور بعد میں جمہوری اسلامی ایران کا چوتھا وزیر خارجہ بنا تھا۔

قطب زادہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ مولویوں ملاؤں کی حکومت کے خلاف تھا اور نجی محفلوں میں اپنے عزائم کا اظہار کرتا تھا جس کی بھنک حکومت کے حساس اداروں کو ملتی ہے۔ کچھ عرصہ بعد اسے آیت اللہ خمینی کے گھر کو بم سے اڑانے کے لئے گھر کے قریب موجود کنویں میں دھماکہ خیز مواد چھپانے کے الزام میں گرفتار کر لیا جاتا ہے اور صرف تین سماعتوں کے بعد عدالت اسے موت کی سزا سناتی ہے۔ بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی بلکہ اچانک قطب زادہ کو انٹرویو اور اقرار جرم کے لئے سرکاری ٹی وی پر لایا جاتا ہے جہاں وہ اس سازش کی تفصیل بیان کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ آیت اللہ شریعتمداری اس سازش کے بارے میں جانتے تھے۔

آیت اللہ شریعتمداری نے اپنے ایک بیانیہ میں صادق قطب زادہ کے بیانات کی تردید کرتے ہوئے لکھا:

"آپ دیکھیں کہ قطب زادہ نے کیا کہا ہے، وہ کہتا ہے کہ اس کا ہمارے ساتھ براہ راست رابطہ نہیں تھا بلکہ بیچ میں موجود دو افراد ایک حجازی اور دوسرا آقائے مہدوی کے ذریعے اس نے ہمیں مطلع کیا ہے اور ہم نے وعدہ کیا ہے کہ اگر انہوں نے اپنی سوء نیت کو عملی جامہ پہنایا تو اس وقت ہم تائید کریں گے۔ میں ان باتوں کی مکمل تردید کرتا ہوں، "

قطب زادہ کیس کے قاضی آقائے محمدی ری شہری نے اپنی یادداشتوں پر مشتمل کتاب میں ان واقعات کی تفصیل بتاتے ہوئے آیت اللہ شریعتمداری کے بارے میں لکھا ہے:

"وہ خود پر لگنے والے الزامات کے حوالے سے عام سرکاری تفتیشی افسران کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ البتہ شاید کسی میں اتنی جرات نہیں  تھی کہ جاکر ان سے سوال و جواب کرے۔  ان کی معزز شخصیت کے پیش نظر تحقیق کے لئے میں خود ان کے پاس قم چلا گیا اور گھر کے بیرونی حصے میں بیٹھ کر انہیں پیغام بھیجا کہ یہاں تشریف لے آئیں۔ وہ آئے اور بیٹھے تو میں نے ان سے کہا کہ آقائے قطب زادہ حکومت کے خلاف کچھ کارروائی کرنے کا ارادہ رکھتا تھا اور اس نے آپ کو بھی اس سے آگاہ کیا تھا۔ کیا آپ اس بات کو قبول کرتے ہیں؟ آقائے شریعتمداری نے جواب دیا کہ یہ جھوٹ ہے اور میں اس بارے میں بالکل بے خبر ہوں۔ میں نے کہا: بہت خوب آپ یہی بات مجھے لکھ کر دیں کہ یہ ایک جھوٹا الزام ہے۔ پھر میں نے تفتیشی کاغذ پر اپنے سوالات لکھ کر ان کے سامنے رکھا اور انہوں نے جوابات لکھ دیئے۔"

آیت اللہ منتظری نے اپنی یادداشتوں میں ایک جگہ اس حوالے سے لکھا ہے:

"ایک دن آقائے حاج احمد آقا (آیت اللہ خمینی کا بیٹا) قم میں ہمارے گھر آئے۔ اس وقت آقائے حاج سید ہادی بھی وہاں موجود تھے۔ احمد آقا دھمکی آمیز لہجے میں کہنے لگے کہ آج رات قطب زادہ  ٹیلی ویژن پر آقائے شریعتمداری کے بارے میں کچھ باتیں کرنے والا ہے۔ آپ کو خبردار کرتا ہوں کہ آپ بالکل خاموش رہیں گے اور کوئی بات نہیں کریں گے!"

آیت اللہ منتظری مزید لکھتے ہیں:

"بعد میں سنا کہ آقائے حاج احمد آقا جیل میں قطب زادہ سے ملنے گیا تھا اور ملاقات کے دوران اس سے کہا تھا کہ مصلحت یہی ہے کہ تم فی الحال یہ باتیں کرو اور اقرار جرم کرلو، امام بعد میں تمہیں معاف کر دے گا۔ لیکن ہوا یہ کہ بعد میں اسے موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ اس کے علاوہ کچھ عرصہ بعد ایک معتبر ذریعے سے معلوم ہوا کہ مرحوم امام کے گھر کے قریب موجود کنویں میں دھماکہ خیز مواد ڈالنے کا واقعہ صرف ایک جھوٹی کہانی تھی اور واقعیت نہیں رکھتا تھا۔ اس ڈرامے کا مقصد صرف مرحوم آقائے شریعتمداری کے خلاف کیس بناکر انہیں پھنسانا تھا۔" (آیت اللہ منتظری کی ڈائری ص:485)

بہرحال قطب زادہ کے اعتراف نے اپنا کام کر دکھایا اور حالات اس نہج پر جانے لگے جس کی حکومت کو آرزو تھی۔ یہ ایک ہنگامہ خیز اعتراف تھا جس کے نتیجے میں سارے انقلابی آیت اللہ شریعتمداری کے جان کے دشمن ہوگئے اور انہوں حملہ کرکے ان کے گھر اور مدرسے کا محاصرہ کر لیا۔

آقائے رفسنجانی نے اپنی ڈائری میں اس تاریخ کی یاداشت میں لکھا ہے:

مجھے اطلاع ملی ہے کہ نماز جمعہ کے بعد قم کے لوگوں نے آقائے شریعتمداری کے خلاف احجاجی جلوس نکال کر "دارالتبلیغ" پر قبضہ کر لیا ہے۔ ان کے قریبی لوگوں کے ٹیلی فون لائنوں کو بھی کاٹ دیا ہے۔"

آیت اللہ شریعتمداری نے اپنے متعلق ہونے والی غلط فہمی کا ازالہ کرنے اور صورتحال کی واقعیت سے آگاہ کرنے کے لئے آیت اللہ خمینی کو کئی خطوط لکھے مگر انہوں نے اس مرجع مظلوم کے کسی خط پر توجہ نہیں دی اور حالات بد سے بدتر ہوتے گئے۔ خود پر ہونے والی ظلم و ناانصافی کی شکایت کرتے ہوئے آیت اللہ شریعتمداری ایک خط میں لکھتے ہیں:

"مجھ پر لگائے جانے والے الزامات کی تردید کرنے اور حقیقت بیان کرنے کا مجھے موقع نہیں دیا جاتا اور اس وقت میرا گھر مکمل محاصرے میں ہے اور آمد و رفت پر پابندی۔ اگر میرے خلاف یہی پروپیگنڈے جاری رہے اور نماز جمعہ کے خطبوں، ذرائع ابلاغ اور اخبارات میں لوگوں کو میرے خلاف اکسانے کا سلسلہ جاری رہا تو میرے اور میرے گھر والوں کی زندگی شدید خطرے میں پڑ جائے گی۔ لہذا آقایان کو اس خطرے سے آگاہ کرتا ہوں اور اپنی شکایت خدا کے درگاہ میں لے جاتا ہوں۔"

قطب زادہ کے ان اعترافات کے بعد حکومت کی ایما پر "انجمن مدرسین حوزہ علمیہ قم" نے ایک اطلاع نامہ میں کہ جسے بہت سارے بزرگ علمائے کرام نے شک کی نظر سے دیکھا، ایک نئی بدعت کی بنیاد رکھتے ہوئے آیت اللہ شریعتمداری کو مرجعیت کے مقام سے معزول کر دیا حالانکہ سالوں پہلے حوزہ علمیہ قم کے بانی آیت اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری نے ان کی مرجعیت پر مہر تصدیق ثبت کی تھی۔

حکومت نے اسی پر اکتفا نہ کیا بلکہ نظربندی میں ان سے پوچھ کچھ اور تفتیش کا ایک گھناؤنا سلسلہ شروع کیا اور آخر میں عوام الناس کو فریب دینے کے لئے کاٹ چھانٹ اور ویڈیو ایڈیٹنگ سے کام لیتے ہوئے سرکاری ٹی وی پر ان کا ایک ویڈیو نشر کیا گیا جس میں وہ ایک کاغذ پر لکھا ہوا متن پڑھ رہے تھے اور اپنے قصور یا تقصیر کے حوالے سے خدا کے درگاہ میں استغفار کر رہے تھے۔

اس مظلوم مرجع تقلید نے ایک خط میں ٹیلی ویژن سے نشر ہونے والی ویڈیو کو کاٹ چھانٹ شدہ قرار دیتے ہوئے لکھا:

"اُن چیزوں میں سے ایک کہ جن پر جوان مردہ ماں کی طرح رونا لازم ہے یہ ہے کہ مجھ سے کچھ سوالات پوچھے گئے اور ان کا جواب دینے پر مجھے مجبور کیا گیا اور جب میں نے ان سوالوں کا جواب دیا تو اسے ٹیلی ویژن سے اس طرح نشر کیا گیا کہ میری آدھی باتوں کو کاٹ دیا گیا تھا۔۔۔ اور مقام حیرت یہ کہ قاضی (آقائے ری شہری) نے خود میرے سامنے اقرار کیا کہ: میں نے اس ویڈیو کو اس انداز میں ایڈیٹ کرنے کا حکم دیا تھا۔"

یہاں اس بات کا ذکر بیجا نہ ہوگا کہ آیت اللہ شریعتمداری کو بدنام کرنے کے لئے انجام شدہ کارروائیوں کے ممکنہ منفی اثرات سے بچنے اور آیت اللہ خمینی کو شہرت اور تقدس بخشنے کے لئے حکومت نے ایک اور عجیب و غریب کام کیا۔ آیت اللہ خمینی کے بارے میں یہ مشہور کردیا کہ چاند پر ان کی شبیہ دکھائی دی گئی ہے۔ اس اعلان نے آیت اللہ خمینی کو شہرت کو چار چاند لگا دیئے اور دنیا کے کئی ملکوں میں ہزاروں افراد نے چاند پر ان کی تصویر دیکھنے کی کوشش کی۔ تصویر دکھائی نہ دینے کے باوجود ہزاروں کمزور عقیدہ لوگوں کا آج بھی یہ خیال ہے کہ امام خمینی کی شبیہ چاند میں ضرور دکھائی دی گئی ہو گی۔

ان ساری کارروائیوں کے ذریعے ایک کروڑ مومنین کے مرجع تقلید کر بے آبرو کرکے اور آقائے خمینی کو شہرت بخش کر حکومت کافی حد تک اپنے مقصد میں کامیاب ہوچکی تھی اور ہزاروں سادہ لوح مومنین نے آیت اللہ شریعتمداری کی تقلید چھوڑ کر آقائے خمینی کی تقلید کا طوق اپنی گردنوں میں ڈالنا شروع کیا تھا۔

آیت اللہ شریعتمداری نے اپنے خلاف ہونے والے نفرت انگیز پروپیگنڈے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے رہبر جمہوری اسلامی کو مخاطب کرکے ایک اور خط میں لکھا:

"اگر آپ کا مقصد ہمیں بے آبرو کرنا تھا تو وہ مکمل طور پر حاصل ہوچکا اور اگر ہم سے مرجعیت کو چھیننا تھا تو یہ کامیابی بھی حاصل ہوچکی۔ اب مزید میرے خلاف افواہ پھیلانے کا سلسلہ جاری رکھنے کے دو نقصانات ہیں: ایک، میرے اور میرے متعلقین کے لئے بدامنی، افراتفری اور خطرات پیدا ہونگے اور دوسرا، غیر ملکی موقع پرست ریڈیو والے اس سے غلط فائدہ اٹھائیں گے اور یہ دونوں باتیں تکلیف دہ ہونگی۔ لہذا آپ سے گزارش کرتا ہوں حکم صادر فرمائیں کہ اس پروپیگنڈے کو یہیں پر روک دیں کہ اس سے نقصان کے سوا کچھ بھی حاصل نہ ہوگا۔"

ان تمام بیانات اور لکھے گئے خطوط کے باوجود آیت اللہ شریعتمداری پر حکومت کا دباؤ کم نہ ہوا۔ ان کی نظربندی ختم ہوئی اور نہ ہی اس ضعیف العمر سادات کو جو کہ کینسر جیسی موذی مرض میں مبتلا تھے، اپنا علاج کرانے کے لئے کسی ہستپال میں جانے کی اجازت ملی۔ سرکاری سطح پر شائع ہونے والی دستاویزات کے مطابق حکومت کے اعلیٰ حکام شروع سے ہی یہ بات جانتے تھے کہ آیت اللہ شریعتمداری کو کینسر ہے مگر ان کی اور ان کے ڈاکٹر کی گزارش کے باجود انہیں علاج کے لئے تہران کے کسی ہسپتال سے رجوع کرنے کی اجازت نہ ملی۔ اس حوالے سے شائع شدہ دستاویزات میں سے ایک میں آیا ہے:

مرحوم آیت اللہ حاج آقا رضا (صدر) آیت اللہ شریعتمداری کی نظربندی ختم کرانے یا کم از کم اس مرجع مظلوم کی جان بچانے کے لئے آپریشن اور علاج کی خاطر انہیں ملک سے باہر کے کسی ہسپتال میں منتقل کرنے کی اجازت حاصل کرنے کے لئے آیت اللہ آقائے حاج عبدالکریم موسوی اردبیلی اور آیت اللہ آقائے حاج سید محمد صادق لواسانی کے ذریعے آیت اللہ خمینی کو بار بار پیغام بھیجتے تھے مگر ان کا جواب ہمیشہ منفی ہوتا تھا۔ آیت اللہ صدر سے نقل شدہ ایک روایت کے مطابق ایک دفعہ تو نوبت یہاں تک پہنچی کہ آقائے خمینی نے کہا تھا: شریعمتداری کو اپنے گھر میں ہی قیدی بن کر رہنا ہوگا یہاں تک کہ اپنی بیماری میں ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مر جائے!"

آیت اللہ شریعتمداری سن 1982ء سے  23 فروی 1986ء تک علاج معالجے کی سہولت سے محروم نظربندی کی حالت میں کینسر جیسی جان لیوا بیماری سے مقابلہ کرتے رہے جوکہ اس دوران کنٹرول سے باہر ہوچکی تھی۔  وفات سے صرف چالیس دن پہلے انہیں ہسپتال منتقل کیا گیا مگر اسوقت تک ان کی بیماری ناقابل علاج ہوچکی تھی اور یوں یہ سادات عالی قدر بے کسی کی حالت میں 3 اپریل 1986 کو اس دارِ فانی سے کوچ کر گئے۔ نام نہاد جمہوری اسلامی نے مرحوم کی وصیت کو نظرانداز کرتے ہوئے ان کی میت کو رات کے اندھیرے میں قم کے ایک گمنام قبرستان میں اس مظلومیت کے ساتھ دفن کر دیا کہ ان کے متعلقین، مقلدین اور چاہنے والوں کو ان کے تشیع جنازے میں شرکت کرنے، جنازے کو کندھا دینے اور ان پر نماز جنازہ پڑھا کر وصیت کے مطابق دفن کرنے تک کی اجازت نہ ملی۔

آیت اللہ شریعتمداری کے ساتھ ہونے والے ظلم و ناانصافی پر مبنی برتاؤ نے حوزہ ہائے علمیہ کے علماء و مجتہدین پر ایسی دہشت طاری کر دی کہ اکثریت نے چپ سادھ لینے اور اس معاملے سے خود دور رکھنے میں عافیت سمجھتے ہوئے خاموشی اختیار کر لی۔ صرف دو مراجع تقلید نے اس سلسلے میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا:

ان دو قابل احترام شخصیات میں سے ایک مشہد کے ایک مرجع تقلید آیت اللہ سید حسن طباطبائی قمی تھے جوکہ اُس وقت خود بھی نظربندی کی زندگی گزار رہے تھے۔ انہوں نے قم کے بلند پایہ عالم دین اور مشہور شخصیت امام موسیٰ صدر کے بھائی آیت اللہ رضا صدر کو مخاطب کرکے ایک خط لکھا جس میں اس واقعہ پر اپنے دکھ کا اظہار کیا تھا۔ یادرہے کہ مرحوم شریعمتداری کی وصیت کے مطابق آیت اللہ رضا صدر کو ان کا نماز جنازہ پڑھانا تھا۔ خط میں انہوں نے لکھا تھا:

"محو حیرت ہوں کہ جمہوری اسلامی کہلانے والے ملک سے سویت یونین کے کافر، دشمن خدا اور منکر خدا لیڈر کے جنازے میں شرکت کے لئے تو باقاعدہ وفد بھیجا جاتا ہے، مگر اندرون ملک اور بیرون ملک کثیر تعداد میں مقلدین اور پیروکار رکھنے والے عالم دین اور مرجع تقلید جب رحلت پا جاتے ہیں تو اُس مرحوم کے جنازے کو لازمی عزت و احترام دیئے بنا دفنانے کے لئے لے جایا جاتا ہے اور جناب عالی کو مرحوم کی وصیت پر عمل کرنے سے روکتے ہوئے ان کا نماز جنازہ پڑھانے نہیں دیا جاتا"

آیت اللہ طباطبائی قمی مزید لکھتے ہیں:

"حد یہ کہ شرعی وظیفے پر عمل کرتے ہوئے مصیبت زدہ خاندان کو تسلی دینے اور متعلقین کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کے لئے آپ جب مرحوم کے گھر تشریف لے جاتے ہیں تو نہایت بے شرمی کے ساتھ جناب والا کو گرفتار کرکے کچھ عرصے کے لئے جیل میں رکھا جاتا ہے۔"

آیت اللہ گلپائیگانی نے بھی رہبر انقلاب کو ایک ٹیلی گراف ارسال کیا جس میں آیت اللہ شریعتمداری کے ساتھ پیش آنے والی صورتحال کے متعلق اظہار تاسف کیا گیا تھا۔ انہوں نے آیت اللہ خمینی کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا تھا:

"جو کچھ حضرت عالی اور آیت اللہ شریعتمداری طاب ثراہ کے درمیان پیش آچکا ہے اُس کے بارے میں واقعی فیصلہ خداوند متعال اور ظاہراً تاریخ کے ہاتھ میں ہے ۔۔۔ فی الحال تو ان کے انتقال کی افسوسناک خبر شائع ہو چکی ہے، ضروری سمجھا کہ اظہار پریشانی و تسلیت کے ساتھ مرحوم کے جنازے کو تشیع و لازمی احترامات کے بغیر اور غیر مناسب جگہ پر مخفیانہ طریقے سے دفن کئے جانے کے متعلق افسوس کا اظہار کروں۔ امید کرتا ہوں اب بھی حتی الامکان ان کی شخصیت اور مقامِ مرجعیت کے ساتھ ہونے والے توہین آمیز سلوک کی آپ بذات خود تلافی کریں گے۔"

اسی طرح ایران کے پہلے وزیر اعظم مرحوم مہندس بازرگان نے آیت اللہ مرعشی نجفی کو ایک ٹیلی گراف بھیجا جس میں مرحوم آیت اللہ شریعتمداری کے ساتھ ہونے والے ناروا برتاؤ کے بارے میں انہوں نے لکھا تھا:

"وہ مرحوم کئی سال آزادی سے محرومی، ملاقاتوں اور علاج و معالجے میں محدودیت کے بعد آخرکار داعی اجل کو لبیک کہتے ہوئے دار باقی کی طرف چل بسے۔ اُن کے جنازے کو اس حال میں دفن کیا گیا کہ اُن کے رشتہ دار، دوست و احباب اور مقلدین ان کے جنازے کو وداع کہہ سکے نہ ان کی وصیت کے مطابق کفن دفن کا انتظام کرکے ان پر نماز جنازہ پڑھ سکے اور نہ ہی ان کی وصیت کردہ جگہ پر دفن کرسکے۔ اور بعد میں بھی وہ مجلس ترحیم، ایصال ثواب اور ختم قرآن کی مجالس برپا کرنے سے محروم رہے۔"

کچھ عرصہ بعد آیت اللہ رضا صدر نے ایک کتابچہ بنام "زندان ولایت فقیہ میں" مرتب کیا جس میں انہوں نے مرحوم شریعتمداری کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں اور ناانصافیوں کا مختصر احوال لکھا ہے۔ انہوں نے آیت اللہ شریعتمداری پر ہونے والی سختیوں اور قریبی رشتہ داروں اور دوستوں سے ملنے پر پابندی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سوال کیا ہے کہ:

"ان کے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا گیا؟ ان کی عیادت پر پابندی کیوں لگائی گئی؟ اگر لوگ ان کی عیادت کرتے تو کیا ہوتا؟ ایک بوڑھے شخص کو جو کہ صحیح طرح بات بھی نہیں کر سکتا تھا، عمر کے آخری حصے میں اپنے بیٹے سے ملنے اور دو لفظ بات کرنے کی اجازت کیوں نہیں دی گئی؟ اگر یہ بیٹا اپنے باپ سے تھوڑی دیر بات کر لیتا تو کیا ہوتا؟ کیا یہ عدلِ اسلامی ہے؟"

آیت اللہ صدر اپنی تحریر آگے بڑھاتے ہوئے مرحوم شریعتمداری کی وفات کے بعد سیکیورٹی اداروں کی جانب سے برتی جانے والی سختیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

"ایسا لگتا تھا کہ حکومت نے اس معاملے میں خاص قسم کے اقدامات پر عمل کرنے کا تہیہ کر رکھا ہے جیسے: مرحوم کا جنازہ ان کے متعلقین کے حوالے نہ کیا جائے! تشیع جنازہ عمل میں نہ آنے پائے! مرحوم کی وصیت پر عمل نہ ہونے پائے! ان کے لئے مجلس ترحیم رکھنے کی اجازت نہ دی جائے! اگر کسی نے ان کے ایصال ثواب کے لئے مجلس عزاء کا اہتمام کیا تو اُسے گرفتار کرکے جیل بھیج دیا جائے! کسی کو یہ اجازت نہ دی جائے کہ وہ مرحوم کے مصیبت زدہ خاندان کو تسلی دینے ان کے گھر جائے! ساتویں اور چہلم کو فاتحہ خوانی کی مجلس رکھنے کی اجازت نہ دی جائے! اور گھر سے گریہ و زاری کی آواز باہر نہ نکلنے پائے!"

آیت اللہ رضا صدر کو نہ صرف مرحوم کی وصیت کے مطابق نماز جنازہ پڑھانے کی اجازت نہ ملی بلکہ تشیع جنازہ کے لئے وہاں حاضر ہونے کے جرم میں گرفتار کرکے راہی زندان کر دیا گیا۔

احسان کا بدلہ۔۔۔!

ایسا لگتا تھا کہ مرحوم شریعتمداری کے جنازے، کفن و دفن اور مجلس ترحیم میں ہونے والی زیادتیوں سے آیت اللہ خمینی بے خبر نہیں تھے۔ آیت اللہ منتظری نے اپنی یادداشتوں میں اس حوالے سے پیش آنے والی مشکلات کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے:

"ایک رات امام کے ساتھ ہماری میٹنگ تھی اور اس میٹنگ میں آقائے ہاشمی (رفسنجانی)، آقائے خامنہ ای، آقائے موسوی اردبیلی (سربراہ عدلیہ)، وزیر اعظم آقائے (میر حسین) موسوی جیسے حکام بالا اور احمد آقا (فرزند خمینی) بھی موجود تھے۔ گفتگو کے دوران میں نے اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہا کہ: اگر آیت اللہ شریعتمداری کی وصیت کے مطابق آقائے صدر کو ان کا نماز جنازہ پڑھانے دیتے تو کیا مشکل پیش آتی اور آدھی رات کے اُس نماز جنازہ سے انقلاب کو کیا نقصان پہنچ سکتا تھا۔ اب جبکہ انہیں اس بات کی اجازت نہیں دی گئی تو آقائے صدر نے اس پورے ماجرا کو ستر صفحات پر مشتمل ایک رسالے کی شکل دی ہے۔ بہت ہی محترمانہ انداز میں لکھا ہے اور کسی کی توہین بھی نہیں کی ہے، لیکن یہ تحریر تاریخ کا حصہ بنے گی اور حضرتعالی کو محکوم کرے گی اور لوگ کہیں گے کہ آقائے خمینی نے اپنے رقیب مرجع تقلید کے نماز جنازے پر بھی پابندی لگا دی۔"

آقائے منتظری آگے لکھتے ہیں:

"جب میں نے یہ باتیں کیں تو امام بہت ناراض ہوئے اور آقائے شریعتمداری کے متعلق ایک سخت جملہ کہا جسے سن کر مجھے حیرت ہوئی۔ اُن کا رویہ بتا رہا تھا کہ انہیں آقائے شریعتمداری کے خلاف بہت بھڑکایا گیا ہے۔" (آیت اللہ منتظری کی یادداشتیں، ج 1، ص 483)

آیت اللہ شریعتمداری 81 سال کی عمر میں جبکہ وہ کینسر جیسی بیماری میں مبتلا تھے، علاج معالجے کی سہولت سے محروم بے حد ذہنی و نفسیاتی دباؤ کی حالت میں ولایت فقیہ کی قیدوبند میں دنیائے فانی کو وداع کرگئے۔ مگر خود کو مقدس کہنے والے جمہوری اسلامی کے ماتھے پر یہ داغ چھوڑ گئے کہ دینِ رحمت اور عدلِ علیؑ کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والی حکومت نے اُس ضعیف العمر مرجع تقلید پر بھی رحم نہ کیا اور اسے بھی اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھا دی جس کی کوششوں سے رہبر انقلاب پھانسی کے پھندے تک پہنچنے سے بچ گئے تھے۔

البتہ آیت اللہ شریعتمداری ہی وہ واحد مرجع تقلید نہیں جنہیں اس نام نہاد مقدس نظام پر تنقید کرنے کی بھاری قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ انقلاب کے بعد جمہوری اسلامی کی غلط پالیسیوں اور غلط طرز عمل پر تنقید کرنے کے جرم میں قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے علماء و مراجع کی فہرست طویل ہے۔

اپنی غلط سیاستوں کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو بری طرح کچلنا جمہوری اسلامی کی دیرینہ روایت رہی ہے خواہ وہ آواز آیت اللہ شریعمتداری جیسے شروع سے تنقید کرنے والے نظریاتی مخالف کی ہو یا دو دہائیوں سے زیادہ عرصے تک آقائے خامنہ ای کی پشت پر ایک محافظ کی طرح کھڑے رہنے والے آیت اللہ آذری قمی جیسے انقلابی کی ہو، خواہ وہ آیت اللہ خمینی کا زمانہ ہو یا آقائے خامنہ ای کا۔ مگر چونکہ آیت اللہ خمینی کی نسبت آقائے خامنہ ای کی حکومت کا دورانیہ زیادہ عرصے پر پھیلا ہوا ہے اس لئے ان کے دور میں سختیاں، پابندیاں، نظربندیاں اور قیدوبند کی صعوبتیں برداشت کرنے والے علماء و مجتہدین کی فہرست بہت طویل ہے جس کی شرح و تفصیل کے لئے دفتروں کے دفتر درکار ہونگے۔ بقول شاعر:

گر بگویم شرح آن بیحد شود
مثنوی هفتاد مَن کاغذ شود

حوالہ جات:
1۔ "اسنادی از شکستہ شدن ناموس انقلاب" از دکتر محسن کدیور
2۔ "پاداشِ نامه نجات بخش یا تاوان انتقاد از ولی فقیه" از حمید صافی ویب سایت جرس
"آیت الله شریعتمداری، مرجع تقلیدی که در حصر درگذشت" از جلال یعقوبی ویب سایت بی بی سی فارسی

ہفتہ، 11 مارچ، 2017

کامریڈ آیت اللہ امام سید علی خامنہ ای

یہ کتاب ایران کے اسلامی انقلاب کی منصوبہ بندی اور انقلاب کو عملی جامہ پہنانے میں سویت خفیہ ایجنسی کے کلیدی کردار کو آشکار کرتی ہے۔ اسی طرح یہ کتاب سید علی خامنہ ای کو ولی فقیہ مطلق کے مقام تک پہنچانے میں اس خوفناک ایجنسی کے عیاں و پنہاں مدد کو بھی آشکار کرتی ہے۔ اس کتاب کی دس فصلوں میں سے ہر ایک فصل میں انقلاب اسلامی کی تاریخ کے سربمہر اور ہولناک رازوں میں سے ایک راز سے ہمارا سامنا ہوگا کہ ان رازوں سے پردہ اٹھانے کے علاوہ انقلاب کی آگ کو چنگاری دکھانے اور شاہ کو سرنگوں کرنے کے لئے روسی خفیہ ایجنسی کے پیچیدہ نقشے کا بھی قریبی جائزہ لیا جائے گا۔ "کامریڈ آیت اللہ" بعض ایسی دستاویزات کی بنیاد پر کہ جن میں سے بعض پہلی بار شائع ہو رہی ہیں، انقلاب ایران میں مغربی دنیا کے ساتھ نبرد آزمائی میں KGB کے کردار کو واضح کرتی ہے۔


کامریڈ آیت اللہ
ایران کے اسلامی انقلاب اور سید علی خامنہ ای کے
کرسی اقتدار تک پہنچنے میں سویت خفیہ ایجنسی کا کردار

مؤلف: امیر عباس فخر آور
ناشر: شرکتِ کتاب

پیش لفظ

تقریباً ایک سو سال کے عرصے سے تقدیر، ہماری اس قدیم آریائی سرزمین کے ساتھ ایک تلخ کھیل کھیل رہی ہے۔ عجیب و غریب حادثات کی ہواؤں نے ہم ایرانی عوام کو ایک تاریخی بے یقینی کی کیفیت میں معلق رکھا ہوا ہے۔ ایک مشترکہ درد کہ جس کی اب ہمیں عادت ہوچکی ہے اور اپنی روزمرہ زندگی کی الجھنوں نے ہمیں اس درد کے نقطہ آغاز کے بارے میں سوچنے کی قوت سے بھی محروم کر رکھا ہے۔ اگر ہمارے بڑے بوڑھوں نے اس مشترکہ درد کی جڑ کو ڈھونڈ لیا ہوتا تو شاید اب تک ہم اس کے حل کے بارے میں سوچنے کے قابل ہوتے۔ جو کچھ آپ کے سامنے ہے اُن سوالوں کا جواب ڈھونڈنے کے لئے دو دہائیوں کی بھاگ دوڑ کا خلاصہ ہے جن کے ساتھ میں نے اپنی آدھی زندگی گزاری ہے۔ آخرکار چار سال پہلے جب اس کتاب کو لکھنا شروع کیا تو کئی چیزوں کی توقع رکھتا تھا۔ توقع رکھتا تھا کہ یہ کتاب ایک ظالم ڈکٹیٹر کی بائیوگرافی یا سویت یونین کے ایک پرانے جاسوسی نیٹ ورک کے انکشاف میں تبدیل ہوگی، لیکن یہ کہ کتاب "کامریڈ آیت اللہ" ایران کے سیاسی-فوجداری تاریخ کی سیاہ ترین فائلوں سے پردہ اٹھانے والے سب سے بڑے تحقیقاتی مجموعے میں تبدیل ہوگی میرے وحشی ترین تصورات میں بھی اس خیال کے لئے جگہ نہیں تھی۔ آج پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اپنی سرزمین کے عوام کے درد کو پہچان چکا ہوں اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کتاب کے آخر تک میرے ہمسفر رہنے والے قارئین میں گزشتہ سو سالوں کے دوران اس سرزمین پر گزرنے والے حادثات کے متعلق ایک نئی سوچ پیدا ہوگی۔ مشکل یہ تھی کہ ہمیں اس مشترکہ درد کو اپنی سرزمین کے اندر نہیں بلکہ کوسوں دور شمال میں واقع وسیع و عریض ہمسایہ ملک روس کے اندر تلاش کرنا چاہئے تھا۔ وہاں جہاں سن 1905ء میں ٹزاری آٹوکریسی کے خلاف  ایک انقلاب کی چنگاری کو ہوا دی گئی۔ بارہ سال بعد، بالشویکی انقلاب کے شعلوں نے پہلے اس وسیع و عریض سرزمین کے عوام کا دامن پکڑا اور اس کے بعد ایرانِ کُہن اور کرہ ارض کے باقی ممالک اس کی زد میں آگئے اور ان کی تاریخ، تہذیب اور پہچان کو مٹی میں ملا دیا۔

کتاب "کامریڈ آیت اللہ" دس فصلوں میں 1979ء کے اسلامی انقلاب کی منصوبہ بندی اور انقلاب کو عملی جامہ پہنانے میں سویت خفیہ ایجنسی کے کلیدی کردار اور بعد از آں سید علی خامنہ ای کو ولی فقیہ مطلق کے مقام تک پہنچانے میں اس خوفناک ایجنسی کے آشکار و پنہاں مدد سے متعلق دستاویزات کی چھان بین پر مشتمل ہے۔ اس کتاب کی دس فصلوں میں سے ہر ایک فصل میں انقلاب اسلامی کی تاریخ کے سربمہر اور ہولناک رازوں میں سے ایک راز سے ہمارا سامنا ہوگا کہ ان رازوں سے پردہ اٹھانے کے علاوہ کوشش کی گئی ہے کہ اس سلسلے میں محققین کے لئے آزادانہ اور موضوعی تحقیق کے امکانات بھی فراہم ہوسکیں۔

پہلی فصل سرد جنگ کے تاریخچے کے متعلق ہے کہ جس کی جڑ سلطنت عثمانی کے زیادہ سے زیادہ حصوں پر قبضہ کرنے کے لئے برسرپیکار پہلی عالمی جنگ کے دو فاتح ملکوں یعنی روس اور برطانیہ کے مابین رقابت میں پوشیدہ تھی۔ عثمانی اس جنگ میں شکست کھانے والا سب سے بڑا فریق تھا اور ان کی فوج کے ہاتھ سے نکل جانے والی قیمتی ترین جنگی مال غنیمت میں مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے تاریخی ممالک شامل تھے۔ روس میں بالشویکی انقلاب نے جوکہ پہلی جنگ عظیم کے اختتام کے ساتھ ہی وقوع پذیر ہوا تھا، روسیوں سے شروع میں ہی اس فرصت کو چھین لیا تھا کہ اس قیمتی سرزمین کے بعض علاقوں پر اپنا قبضہ جما سکے اور اس طرح انگلستان اور فرانس ایسی دو طاقتیں تھیں جنہوں نے مشرق وسطیٰ کے بیشتر علاقوں پر قبضہ کر لیا تھا۔1917ء کے انقلاب اور یو ایس ایس آر کی تشکیل کے ساتھ روسیوں کی نگاہیں دوبارہ اپنی اس نوزائیدہ سلطنت کی سرحدوں سے باہر دیکھنے کے قابل ہوئیں تو عثمانی سلطنت میں ان کا نامحسوس اثرنفوذ، بین النحرین سے فلسطین اور مراکش سے مصر تک تیزی سے بڑھنے لگا۔ دوسری عالمی جنگ شروع ہونے کے ساتھ نازی جرمنی کا اتحادی ہونے کو بہانہ بناکر سویت یونین اور برطانیہ کی فوجیں شمال اور جنوب سے ایران میں داخل ہوئیں اور پورے ملک پر قبضہ کر لیا۔ اس طرح سویت خفیہ ایجنسی کے جاسوسوں اور ماسٹرمائنڈ افراد کی بڑی تعداد کو سویت سرخ فوجیوں کے روپ میں ایران میں مخفیانہ طور پر داخل ہونے اور ایران کے چپے چپے میں پھیل کر معاشرے کے تمام طبقات میں اپنے لئے جگہ بنانے کا بہترین موقع ملا۔ دوسری عالمی جنگ ختم ہونے کے فوراً بعد برطانوی فوجیں ایران سے نگل گئیں۔ سویت سرخ فوج بھی بین الاقوامی پریشر اور خصوصاً امریکی دباؤ کی وجہ سے کچھ عرصہ بعد ایران کی سرزمین کو چھوڑنے پر مجبور ہوگئی لیکن سویت خفیہ ایجنسی کے جاسوسوں کی فوج نے کبھی ایران کو خیرباد نہ کہا۔ یوں ایران میں حکومت کی تبدیلی اور سویت یونین کے لئے کام کرنے والے وفادار ایجنٹوں کو تلاش کرنے اور انہیں تربیت دینے کے لئے ان جاسوسوں اور ماسٹرمائینڈ افسران کی تین دہائیوں کی محنت کا ثمرہ 1979ء میں اسلامی انقلاب کی صورت میں ظاہر ہوا۔ اس تلخ دورانئے میں ایران، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ پر جو کچھ گزرا، فصل ہذا میں اس کی تصویر کشی کی گئی ہے۔

دوسری فصل میں بعض خفیہ دستاویزات کے آئینے میں جوکہ پہلی بار اس کتاب میں شائع ہورہی ہیں، روس کی خدمت گزاری پر مامور سویت خفیہ ایجنسی کے توسط سے انقلاب اور اس کے بعد کے دنوں کے لئے ماسکو سے تربیت حاصل کرکے آنے والی ایران کی بعض بااثر شخصیتوں کی حالات زندگی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح ہم دیکھیں گے کہ گزشتہ تین دہائیوں کے دوران جمہوری اسلامی کی تنگ سیاسی ماحول کے اندر تاثیر گزار تینوں سیاسی قوتیں بھی سویت خفیہ ایجنسی کی خدمت پر مامور رہی ہیں: سید علی خامنہ ای کہ جن کے ہاتھ میں قدامت پسند حکومتی جماعت کی رہبری ہے، سید محمد موسوی خوئینی ہا جوکہ اصلاح پسند گروہ کے معنوی باپ کی حیثیت رکھتا ہے اور اسی طرح گزشتہ چند سالوں کے دوران وجود میں آنے والا نیا قدامت پسند بازو کہ جس میں محمود احمدی نژاد کے قریبی مشاورین کامران دانشجو، محمود مُلاباشی اور ارسلان قربانی جیسے افراد شامل ہیں سارے لوگ پیٹریس لومومبا یونیورسٹی میں زیر تربیت رہے ہیں جو کہ 1960ء سے آج تک روسیوں کے لئے جاسوس تربیت دینے  والا مرکز رہا ہے۔

تیسری فصل ماسکو میں واقع پیٹریس لومومبا یونیورسٹی المعروف پیپلز فرینڈشپ یونیورسٹی کے بارے میں تفصیلات پر مشتمل ہے جس میں مشرق وسطیٰ، افریقا، ایشیا اور جنوبی امریکا میں سویت یونین کے وفادار لیڈران تیار کرنے کے لئے اس یونیورسٹی کے اقدامات کے تاریخچے کا جائزہ لیا گیا ہے۔ یہ ایک ایسی یونیورسٹی ہے جس کے بارے میں خود روسی خفیہ ایجنسی KGB کے ہائی کمان افسران نے اعتراف کیا ہے کہ سویت خفیہ ایجنسی نے اس کی بنیاد رکھی ہے اور مینجمنٹ کے علاوہ یونیورسٹی کا پورا سٹاف، اساتید اور سارے غیرملکی شاگرد بھی سویت خفیہ ایجنسی کی خدمت پر مامور رہے ہیں۔ فصل کے آخر میں روس کے 1917ء کے انقلاب کے بعد کی سوسالہ تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی گئی ہے تاکہ ہم پر یہ واضح ہوسکے کہ سویت سرحدوں سے باہر تاک جھانک کی سیاست اس ملک کے ہر حکمران کی حکمرانی کا حصہ رہی ہے۔ اسی طرح مشرقی سوشلسٹ شاہنشاہی نظام کی بحالی کے لئے ولادمیر پوٹین کے خوابوں کی طرف بھی اشارہ کیا گیا ہے۔

چوتھی فصل ایران میں 1979ء کے انقلاب کی ایندھن کو آگ دکھانے کے لئے سویت خفیہ ایجنسی کے آپریشنوں کے آخری مراحل کے بارے میں تفصیلات بیان کئے گئے ہیں خصوصاً 19 اگست 1978ء کو آبادان شہر کے ریکس سینما میں آتش سوزی کا جانکاہ حادثہ اور 9 ستمبر کو تہران میں قتل عام کا ہولناک  واقعہ کہ جس میں اسلامی انقلاب کی تاریخ کے ان واقعات میں پہلی بار سید علی خامنہ ای کے نقش پا دکھائی دیتے ہیں۔ یہ دو حادثات شاہی حکومت کو کمزور کرنے کے لئے بنائے گئے اُن وسیع شورشی منصوبوں کا ایک حصہ تھا جن کے لئے سویت یونین کے کیمپوں میں روسیوں کے وفادار نیم فوجی دستوں نے سالہا تربیت اور ٹریننگ لی تھی۔ سویت خفیہ ایجنسی کی دستاویزات اور افسران کے اعترافات اس واقعیت سے پردہ اٹھاتے ہیں کہ ایک دہائی کے عرصے سے ان فسادات کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی کی جاتی رہی تھی۔ اسی طرح انقلاب اسلامی کی تاریخ کے کچھ ایسی دستاویزات کا آپ فصل ہذا میں مشاہدہ کریں گے جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ ان جرائم میں ملوث افراد کے نشانات کو مٹانے کے لئے مسعود کشمیری کی سربراہی میں سید علی خامنہ ای کے وفادار افراد پر مشتمل ایک وارداتی ٹیم تشکیل دی گئی تھی۔

پانچویں فصل میں سپاہ پاسدارانِ انقلاب کی تشکیل کے تاریخچے کا ایک بالکل ہی نئے زاویئے سے جائزہ لیا گیا ہے۔ سپاہ پاسداران کی بنیاد شروع میں "جمہوری اسلامی پارٹی" کے عسکری بازو کا کردار ادا کرنے کے مقصد کو مدنظر رکھ کر رکھی گئی تھی تاکہ انقلاب کے بعد ابتدائی مہینوں میں "تنظیم مجاہدین خلق اور "عوامی فدائی گوریلا تنظیم" جیسی بڑی اور پُرتعداد پارٹیوں کے ساتھ رقابت کا امکان فراہم ہوسکے۔ سپاہ پاسداران نے جوکہ سویت سرخ آرمی کو آئیڈیل کے طور پر لے کر بنایا گیا تھا اور شہر کے گوشہ و کنار کے گلی محلوں میں رہنے والے غنڈوں، اوباشوں اور اسی طرح مذہبی اعتقاد رکھنے والے بعض نادان جوانوں کو افرادی قوت کے طور پر بھرتی کرتا تھا، بہت جلد سویت خفیہ ایجنسی کی توجہ کچھ اس طرح اپنی طرف کھینچ لی کہ مہدی بازرگان یا بنی صدر کی حکومت کو آگاہ کئے بنا اسلحہ بارود اور دیگر ہلکے پھلکے اور بھاری فوجی سازوسامان کے کئی کھیپ سپاہ پاسداران کو مسلح کرنے کے لئے ماسکو کے راستے ایران روانہ کیا گیا۔ یوں سپاہ پاسداران نے جوکہ اب  خامنہ ای کی خصوصی فوج بن چکی تھی، انقلاب سے پہلے سویت خفیہ ایجنسی کے کیمپوں سے ٹریننگ لے کر آئے ہوئے بہت سے انقلابی جوانوں کو جمع ہونے کی جگہ فراہم کی۔

چھٹی فصل نومبر 1979ء میں امریکی سفارتخانے پر حملے کے واقعے میں سپاہ پاسداران انقلاب کے کلیدی کردار کے بارے میں ہے۔ تہران میں امریکی سفارتخانے کو زیر کرنے کے تین دہائیوں سے زیادہ عرصے بعد ہاتھ آنے والی معتبر دستاویزات اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ "راہِ امام کے پیروکار طلباء" کہلانے والے اکثر حملہ آور سرے سے یونیورسٹی کے طالبعلم ہی نہ تھے بلکہ "انقلابِ اسلامی کمیٹیوں" کے ممبران اور سپاہ پاسدارن کے افراد تھے جنہوں نے پیٹریس لومومبا یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے ایک شخص، یعنی سید محمد موسوی خوئینی ہا کی قیادت میں اس آپریشن کو اپنے انجام تک پہنچایا تھا۔ تہران کے امریکی سفارتخانہ پر چڑھائی اور سفارتی عملے کو 444 دنوں تک یرغمال بنائے رکھنے والے کھیل میں سویت خفیہ ایجنسی نے بلاچون و چرا میدان مار لیا تھا۔ یوں KGB نے بغیر اس کے کہ اس ماجرا میں کسی روسی اہلکار کا ہاتھ نظر آئے، امریکی سفارتخانے کی اہم دستاویزات تک دسترسی حاصل کرلی، امریکہ کے شکست ناپذیر ہونے کے خواب کو چکناچور کر دیا اور اس مغربی سپر پاور کی خوب تذلیل کی۔ اہم تر یہ کہ ایران امریکہ کے ہاتھ سے نکل گیا اور اس کے بعد سویت یونین نے کسی ہم پلہ رقیب کی غیرموجودگی سے فائدہ اٹھا کر انقلاب ایران کو جس سمت میں چاہا موڑ دیا۔

ساتویں فصل سید علی خامنہ ای کے ایک اور بڑے راز سے پردہ اٹھاتا ہے۔ سویت خفیہ ایجنسی کو خبر ملتی ہے کہ ایران فضائیہ کے کچھ افسران جمہوری اسلامی کی نوزائیدہ حکومت کا تختہ الٹنے اور برسر اقتدار انقلابی روحانی پیشواؤں کو حکومت سے بے دخل کرنے کی سازش کر رہے ہیں۔ یہ خبر 9 جولائی 1980ء کو رات کے تین بجے سید علی خامنہ ای کو ملتی ہے اور وہ وقت ضائع کئے بغیر اسی وقت اپنے دو انتہائی قریبی اور قابل اعتماد ساتھیوں یعنی فوج کے ادارہ دوم میں قائم فضائیہ کے دفتر کے انچارج مسعود کشمیری اور سپاہ پاسداران انقلاب کے انٹلیجنس ونگ کے انچارج محسن رضائی سے رابطہ کرتا ہے اور انہیں فوری طور پر اپنے گھر پہنچنے کی تاکید کرتا ہے۔ یوں رات کے اس آخری پہر کی میٹنگ میں "کلین اپ کمیٹی برائے بغاوت نوژہ" کے نام سے ایک کمیٹی تشکیل دی جاتی ہے جس میں مسعود کشمیری کو ایگزیکٹیو ڈائریکٹر کا عہدہ سونپا جاتا ہے اور طے پاتا ہے کہ یہ کمیٹی خامنہ ای کی سربراہی میں کام کرے گی۔ اس کلین اپ کمیٹی نے دس ماہ کے عرصے میں گرفتاریوں، برطرفیوں اور پکڑ دھکڑ کے ذریعے حکومتی اداروں اور فوج کی وسیع پیمانے پر چھانٹی کی اور اس طرح اُن تمام قوتوں کو بے دخل کر دیا جن کے بارے میں شک تھا کہ انقلاب اسلامی اور حکمران مذہبی جماعت کے نصب العین سے وفادار نہیں۔ اس کے بعد 1981ء کے شروع میں اس کلین اپ کمیٹی کے ممبران جوکہ سید علی خامنہ ای کے خاص کارندے تھے، حساس حکومتی اداروں میں داخل ہوئے تاکہ انقلاب کو پائیدار بنانے کے لئے مزید اقدامات کیا جا سکے۔

آٹھویں فصل 1981ء کے موسم گرما میں ہونے والی دہشت گردی کے حملوں اور ان حملوں میں سید علی خامنہ ای اور "کلین اپ کمیٹی" میں اس کے وفادار ساتھیوں کے براہ راست کردار پر از سرنو تحقیق پر مشتمل ہے۔1981ء کی گرمیوں کے قاتلانہ حملوں کا آغاز مجلس شورائے اسلامی میں بنی صدر سے وضاحت طلبی کے ساتھ ہی بنی صدر کے ایک نمایاں حامی ڈاکٹر مصطفیٰ چمران کے قتل سے ہوا۔ ایرانی عوام کے ووٹ سے منتخب ہوکر برسراقتدار آنے والے ایران کے سب سے پہلے صدر کے خلاف ایک سازش کے تحت "ناکافی سیاسی شعور" کا بل اسمبلی میں ہاشمی رفسنجانی کی صدارت میں اور پیٹریس لومومبا یونیورسٹی کے دو فارغ التحصیلان یعنی سید علی خامنہ ای اور سید محمد موسوی خوئینی ہا کے تعاون سے پیش کیا گیا۔ اس کے ایک ہفتہ بعد 26 جون کو ابوذر مسجد میں خامنہ ای پر بم حملے کا ایک ڈرامہ رچایا گیا جس میں بتایا گیا کہ خامنہ ای بال بال بچ گئے ہیں۔ یہی قاتلانہ حملہ سبب بنا کہ آنے والے دنوں میں جمہوری اسلامی حکومت کے متعدد اہم ترین عہدیداروں کو نشانہ بنانے والے سارے خوفناک بم دھماکوں میں خامنہ کی طرف الزام کی انگلی نہ اٹھنے پائے۔ سید علی خامنہ ای کے سارے رقیب یکے بعد دیگرے میدان چھوڑتے جا رہے تھے اور اس کے لئے اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہر روز ہموار تر ہوتا جا رہا تھا۔ جون کی 27 تاریخ کو آیت اللہ بہشتی کو جمہوری اسلامی پارٹی کے 70 سے زیادہ اعلیٰ عہدیداروں کے ہمراہ ایک دھماکے میں اڑا دیا گیا اور 28 جون کو صدر مملکت محمد علی رجائی اور وزیر اعظم محمد جواد باہنر اسی قسم کے ایک دھماکے میں مار دیئے گئے۔ آیت اللہ قدوسی، حسن آیت اور بہت سارے دیگر افراد کو بھی موت کے گھاٹ اتار دیا گیا جو خامنہ ای کے لئے اقتدار تک پہنچنے کے راستے میں ایک طرح سے رکاوٹ بنتے تھے۔رقیبوں سے نمٹنے کا یہ خونی انداز انقلاب روس کے بعد کے ابتدائی سالوں کی یاد تازہ کرتا ہے جب اسٹالین کی کرسی کو مضبوط بنانے کے لئے وسیع پیمانے پر مخالفین اور رقیبوں کا صفایا کیا گیا تھا۔  

ان قاتلانہ حملوں کے کیس کی عدالت میں پیروی کرنے کی کوشش کرنے والے تمام بدنصیبوں کے افسوسناک انجام کی داستان بھی اس فصل کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ ایک قابل ذکر نکتہ جس کی طرف یہاں اشارہ کیا گیا ہے یہ ہے کہ ان دہشت گردی حملوں کے فوراً بعد برسر اقتدار آنے اور آج تک اسی مسند پر براجمان نظر آنے والے سید علی خامنہ ای نے ان کیسوں کی پیروی بارے کبھی بھی دلچسپی نہیں دکھائی ہے۔ سن اکیاسی موسم گرما کے خونی حملوں کی فائلیں جوکہ تین دہائیوں سے عدالت کے ریکارڈ روم میں دھول مٹی کھا رہی ہیں، پہلی بار اس کتاب میں ہر زاویئے سے زیر تحقیق قرار پا رہی ہیں اور ان حملوں میں خامنہ ای اور روسی خفیہ ایجنسی کے ملوث ہونے کی واضح نشاندہی کر رہی ہیں۔

نویں فصل سن اکیاسی موسم گرما کے حادثات کے بعد سے لے کر خمینی کی وفات اور خامنہ ای کے ولی مطلقہ فقیہ بننے تک کے احوال کا احاطہ کرتی ہے۔ وزارت انٹلیجنس کی بنیاد، کرملین پیلس کی طرف سے سبز بتی دکھانے کے ساتھ تودہ پارٹی کی تحلیل، خامنہ ای کے قریبی دوستوں کی ٹیم میں اندرونی اختلافات کا آغاز اور خصوصاً اُس وقت کے وزیر اعظم میر حسین موسوی کے ساتھ خامنہ ای کے اختلافات۔ ایران کونٹرا سکینڈل اور خامنہ ای کا اس بات پر سیخ پا ہونا کہ حکومت کے سب سے بڑے انتظامی عہدے پر ہوتے ہوئے بھی وہ اس بات سے بے خبر رہا تھا اور جواباً سویت خفیہ ایجنسی کی مدد سے ایران کونٹرا مذاکراتی ٹیم اور امریکی صدر کے فرستادوں سے خامنہ ای کا تلخ انتقام، آیت اللہ منتظری کو قائم مقام رہبری کے عہدے سے برطرف کرنے کا نقشہ، سید علی خامنہ ای کے صدارتی ٹرم کے اختتام کے آخری ہفتوں میں خمینی کی مشکوک موت اور آئینِ جمہوری اسلامی میں ردوبدل کرنے کے لئے سازباز وغیرہ ایسے موضوعات ہیں جن کی اس فصل میں چھان بین کی گئی ہے۔

آخری فصل میں انقلاب کے دوران اور انقلاب کے بعد مشرقی اور مغربی دونوں عالمی طاقتوں کے اقدامات پر ایک طائرانہ اور تقابلی نظر ڈالی گئی ہے۔ سویت یونین نے اگست 1941ء میں سرخ فوج کے ایران میں داخلے کے ساتھ ہی تمام اجتماعی طبقات میں اپنے اثر و نفوذ کو تقویت بخشنا شروع کر دیا تھا۔ ایک طرف وہ ایران کے اندر تودہ پارٹی جیسے مارکسسٹ پارٹیوں کی کھلی حمایت اور اسی طرح "قومی محاذ" اور "تحریک آزادی" جیسی تحریکوں کی پوشیدہ حمایت میں مصروف تھا تو دوسری طرف حوزہ ہائے علمیہ سے علوم اسلامی کے جوان سال طالبعلموں کے درمیان سے سویت خفیہ ایجنسی کے لئے وفادار حلیفوں کی تلاش میں مشغول تھا۔ اس کے علاوہ سویت خفیہ ایجنسی ایک طویل المیعاد پروگرام کے تحت محمد رضا شاہ کے دربار تک رسائی حاصل کر چکی تھی اور اس طریقے سے وہ شاہی سلطنت کو کمزور کرنے کے اپنے عزائم کو عملی جامہ پہنا سکتی تھی۔ سب سے اہم یہ کہ "ڈِس انفارمیشن کمپین" یا جھوٹ اور افوازہ سازی مہم کی مدد سے کہ KGB کے افسران جس کے بے رقیب ماہر تھے، وہ ملک کے بدلتے حالات پر گہرے اثرات ڈالنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ بحر اوقیانوس کے دوسری طرف مغربی سپرپاور یعنی ریاستہائے متحدہ امریکہ اس دوران متعدد اندرونی مسائل کا شکار تھا۔  جمی کارٹر اپنے مثالیت پسند تفکرات کے ساتھ حال ہی میں امریکہ کی صدارتی کرسی پر براجمان ہوا تھا اور اس کے تمام سیاسی، اجتماعی، معاشی اور عسکری اقدامات کسی انقلاب سے کم نہ تھے۔ ویتام کی جنگ اور واٹرگیٹ سکینڈل کی بدنامی جوکہ صدر رچرڈ نکسن کے استعفے کا سبب بنا، دونوں ہی کی وجہ سے امریکہ کی خود اعتمادی کا پارہ بے حد نیچے گرا ہوا تھا اور اب کارٹر کے ہاتھوں ہونے والی برطرفیوں اور بھرتیوں نے امریکہ کی اس تصویر پر بھی سوالیہ نشان ڈال دیا تھا جو دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا کے سامنے ابھری تھی۔ کارٹر کے اقدامات کی وجہ سے امریکی خفیہ اور سکیورٹی ایجنسیاں ایران کے بدلتے حالات کو سمجھنے میں کھلی غلطی کا مرتکب ہوئی تھیں اور امریکہ عملی طور پر پیش آنے والے حالات کا صحیح اندازہ لگانے میں ناکام رہا تھا۔ اس بیچ سویت خفیہ ایجنسی وسیع پیمانے پر یہ جھوٹا پروپیگنڈا پھیلانے میں کامیاب ہوئی کہ شاہ کو گرانے اور خمینی اور انقلابی روحانیوں کو برسراقتدار لانے میں امریکی صدر اور مغربی ملکوں کا ہاتھ ہے۔ اس طرح سویت یونین کا ہاتھ کہ جس میں انقلاب ایران اور بعد کے حادثات کی اصل باگ ڈور تھی، کئی دہائیوں تک دنیا کی نظروں سے پوشیدہ رہا تھا۔

اس کتاب کی تالیف کے لئے ماخذ کے انتخاب میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ ایسے ماخذ کا حوالہ دیا جائے جس سے ذاتی و گروہی دوستی اور دشمنی سے بالاتر رہتے ہوئے تاریخی واقعیتوں کو طرفین میں چھڑی ہوئی نفسیاتی جنگ کی دھول مٹی کے نیچے سے نکالا جا سکے۔ اس زہرآلود ماحول نے جوکہ سرد جنگ کے دنوں کی خاصیت رہی ہے اس دوران سے مربوط ہر سیاسی، اجتماعی اور تاریخی موضوع کے بارے میں درست اور قابل اطمینان تحقیق و جستجو کو بے حد مشکل بنا رکھا تھا۔ اسی وجہ سے کتاب "کامریڈ آیت اللہ" میں تاریخی واقعیتوں کو ثابت اور آشکار کرنے کے لئے ایک دشوار مگر قابل اطمینان اسلوب سے کام لیا گیا ہے۔ نمونے کے طور پر انقلاب کی تاریخی حالات اور انقلاب کے بعد کے سالوں میں ملک پر حاکم روحانیوں اور ان کے حامیوں کے اقدامات میں سویت خفیہ ایجنسی کے کردار کو ثابت کرنے کے لئے حکومت مخالف گروہوں اور اپوزیشن کے ماخذ کی طرف رجوع کرنے کی بجائے حکومت کے اعلیٰ عہدوں پر فائز افراد کے توسط سے لکھی گئی کتابوں اور یادداشتوں اور اسی طرح سرکاری تاریخ نگاری کی بنیاد پر معتبر دستاویزات اور سویت خفیہ ایجنسی کے افسران کی طرف سے شائع شدہ اس خاص تاریخی دور سے مربوط یادداشتوں کی روشنی میں ان کا تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ جرات کے ساتھ کہا جا سکتا ہے کہ وہ تمام ماخذ جن کا یہاں حوالہ دیا گیا ہے، جمہوری اسلامی اور روسی حکومت کی طرف سے شائع ہونے والی سرکاری دستاویزات اور اسی نوعیت کے دیگر ماخذ ہیں تاکہ ان جابر حکومتوں کو حیل و حجت کا موقع نہ مل سکے۔ اسی طرح سابق سویت خفیہ ایجنسی، وزارت انٹلیجنس جمہوری اسلامی اور سی آئی اے کی کچھ خفیہ اور کلاسفائیڈ دستاویزات جو کہ تین دہائیوں کے بعد شائع ہوئی ہیں، اس کتاب کی تدوین اور اسلامی انقلاب کے بعد ایران کی تاریخ معاصر کے حافظے سے گردوغبار کو ہٹانے میں بے حد مددگار ثابت ہوئی ہیں۔ ان تمام موارد میں سے اہم تر ماسکو میں واقع پیٹریس لومومبا یونیورسٹی المعروف پیپلز فرینڈشپ یونیورسٹی سے ہاتھ لگنے والی کچھ سکریٹ دستاویزات ہیں جو خصوصی طور پر اور پہلی مرتبہ کتاب "کامریڈ آیت اللہ" میں شائع ہورہی ہیں۔

اس کتاب کے اصلی مخاطبین دو گروہ ہیں: پہلا گروہ قانون سازوں، سیاستدانوں اور اجتماعی و سیاسی علوم کے وہ ماہرین ہیں جو آزاد اور جمہوری دنیا کے اصولوں کا پاس رکھتے ہوئے اور ڈپلومیٹک تعلقات کی بنیاد پر، سید علی خامنہ ای کو ایک مقدس مذہبی رہنما کی نظر سے دیکھتے ہیں اور اُس قوم کے احترام میں کہ جس کی رہبری خامنہ ای کے ہاتھ میں ہے، اپنے مکاتبات، تقریروں اور انٹرویوز میں اسے احترام سے یاد کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو یہ جان لینا چاہئے کہ اس مقدس نقاب کے پیچھے جو خامنہ ای نے اپنے چہرے پر لگا رکھا ہے، سویت خفیہ ایجنسی کا ایک ایجنٹ پوشیدہ ہے جو طاقت و اقتدار کے حصول کے لئے قاتلانہ حملوں اور دہشت گردی کارروائیوں کے ذریعے بے شمار لوگوں کی جانوں سے کھیل چکا ہے۔ اس کتاب کے مخاطبین کا دوسرا گروہ خامنہ ای کے وہ معتقدین ہیں جو جمہوری اسلامی کے توسط سے ہونے والے وسیع تبلیغاتی پروپیگنڈے کی وجہ سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ تاریخ کے کسی موڑ پر، سید علی خامنہ ای ایرانی قوم کی ولایت و رہبری کا پرچم شیعوں کے بارہویں امام کے ہاتھ سے لے چکا ہے اور اس پرچم پر مہر خداوندی ثبت ہے۔ انہیں بھی یہ جان لینا چاہئے کہ امام زمانہ کے ہاتھ سے مہر خداوندی کے ساتھ تو کوئی پرچم خامنہ ای کو نہیں دیا گیا ہے البتہ تاریخ معاصر کے سب سے خوفناک جاسوسی ادارہ سویت خفیہ ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل یوری آندرپوف کے توسط سے ایک فائل خامنہ ای کے بغل میں دبا دی گئی ہے تاکہ امریکہ کے اتحادی ملک ایران کو سویت پنجالی میں جوت دیا جائے۔

کتاب "کامریڈ آیت اللہ" ایک مشترکہ درد کی اصلی وجہ کی تلاش میں ایک پرانے زخم کو کھولتی ہے جو ایک ایسے انفیکشن کی جڑ ہے جس نے ایرانی معاشرے کے پورے وجود کو گھیر رکھا ہے۔ اگرچہ یہ کام تکلیف دہ ہوگا مگر درد کے علاج کے لئے اس بدبودار زخم کو کھولنا اور اس کی واقعیت کو دیکھنا ضروری ہوچکا ہے، اس زخم کو دھونا اور اس تاریخی انفیکشن سے آہستہ آہستہ رہائی پانا ضروری ہے۔ ایسے زخم کو اپنے میلے کچیلے لباس میں چھپانے کا عمل ایک عظیم اور تاریخ ساز قوم کی تباہی اور موت کے وقت کو نزدیک تر لے کر آئے گا۔

پیر، 16 جنوری، 2017

آیت اللہ سید رضا زنجانی اور تکفیرِ خمینی؟!

آقا سید رضا زنجانی اور آقا سید روح اللہ خمینی دونوں حوزہ علمیہ قم کے بانی جناب آقائے شیخ عبدالکریم حائری یزدی کے شاگرد تھے۔ دونوں فقیہوں نے شاہنشاہی آمریت اور اغیار کی بالادستی کا مقابلہ کیا ہے، لیکن دونوں کا اندازِ مقابلہ ایک دوسرے سے بالکل مختلف تھا۔

آقا سید رضا زنجانی نے کبھی وجوہات شرعیہ سے فائدہ نہیں اٹھایا، علاوہ ازیں وہ ولایت فقیہ، دینی حکومت اور سرکاری عہدوں میں مذہبی پیشواؤں کی مداخلت کے سخت مخالف تھے۔

وہ اپنے استاد آقائے شیخ عبدالکریم کے مقرب ترین شاگرد، ڈاکٹر محمد مصدق کے نزدیک ترین روحانی پیشوا، تحریک قومی دفاع کے بانی، قومی محاذ کے نمایاں ترین حامی مذہبی پیشوا اور آقائے خمینی پر تنقید کرنے والے علماء میں سرگرم ترین عالم دین میں ان کا شمار ہوتا تھا۔

سید رضا زنجانی نے ڈاکٹر مصدق کے بارے میں آقائے خمینی کے اس بیان پر کہ "وہ مسلمان نہیں" ان الفاظ میں اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا:

"وہ مرحوم بلاشک ایک معتقد مسلمان تھے اور اسلام کو اپنے سیاسی و ذاتی مقاصد کے حصول اور رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے استمعال کرنے والے کسی آلے سے بالاتر سمجھتے تھے۔ ان کی کابینہ میں ان سے پہلے اور بعد میں آنے والا کونسا وزیر اعظم اور کونسے وزراء ان سے زیادہ پکے مسلمان تھے؟ وہ ایک سیاسی شخصیت تھے نہ کہ مذہب کی تبلیغ کرنے والا ایک مولوی۔"

زنجانی کے مطمع نظر جو حکومت تھی وہ عوامی یا قانونی یا جمہوری حکومت تھی نہ کہ مذہبی حکومت۔ زنجانی عین اپنے استاد شیخ عبدالکیم حائری کی طرح فقیہ کی سیاسی ولایت کے مکمل مخالف تھے اور فقیہ کے لئے جن اختیارات کو صحیح سمجھتے تھے وہ فقط امورِ حسبیہ تھے ( یعنی سرپرست سے فاقد اہم امور جیسے بے آسرا بچوں کی سرپرستی اور اوقافِ عامہ وغیرہ ) وہ بھی قدرِ متیقن (صرف ایسی جگہ جہاں یقین حاصل ہو کہ سرپرست کے بغیر حق ضائع ہوجائےگا۔)

آیت اللہ سید رضا زنجانی آقائے خمینی کے طرزِ عمل اور طرزِ فکر دونوں کے شدید مخالفین میں سے تھے۔ ایران کے آئین میں سرکاری مذہب داخل کرنے کی قرارداد پر انہیں نے نہایت بے باکی سے تنقید کی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ آئین میں ایسی کسی ترمیم سے شیعیت کو کسی قسم کا فائدہ نہیں پہنچے گا۔

ان کی یہ بے باکی اور نڈرپن حکومت کو پسند نہیں آتی اور 1985 میں سپریم جوڈیشری کونسل کی جانب سے ایک کتاب شائع کی جاتی ہے جس میں کسی قسم کے تحریری و تقریری ثبوت کے بغیر سید رضا زنجانی پر یہ الزام عائد کیا جاتا ہے کہ وہ آقائے خمینی کی تکفیر کرنا چاہتے تھے! افسوس کہ عدالتی حکام نے ہر قسم کی تنقید کو تکفیر فرض کر رکھا ہے۔

سید رضا زنجانی نے 8 جون 1981 کے اپنے ایک اعلانیہ میں، جوکہ آج تک کسی بھی ایرانی جریدے یا اخبار میں شائع نہ ہوسکا، نام نہاد جمہوری اسلامی کو آئینہ دکھاتے ہوئے لکھا ہے:

"موجودہ حکومت نے، اپنے سیاسی اندھے پن، اسلامی اصولوں اور اپنے وضع کردہ ملکی آئین سے غفلت، اندرونی اختلافات اور انسانی اقدار و شرعی آداب کی عدم رعایت کی وجہ سے، ملک و قوم کو تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کردیا ہے۔"

"ایسا لگتا ہے کہ حکومت کو کسی بھی وسیلے سے اور کسی بھی قیمت پر صرف اپنی بقا اور کرسی بچانے کی فکر ہے۔ عمل کے میدان میں اصول و اقدار کی رعایت کئے بغیر صرف اسلام کے مبارک لفظ کو کھوکھلا کرکے عام آدمی کو ڈرانے، دھمکانے، قتل و غارت گری اور غیر شرعی و غیر عرفی لوٹ مار کرنے، توہین  و تذلیل کرنے اور ضدِ انقلاب کا الزام لگانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے۔"

زنجانی نے شروع میں ہی دو خطرات کو بھانپ لیا تھا: ایک عراق کے ساتھ جنگ میں شکست اور دوسرا پریشر گروپوں کا وجود میں آنا۔ وہ ایران عراق جنگ کے عوامل و اسباب میں "انقلاب کو ایکسپورٹ" کرنے والے نعرے کی ایک سیاسی غلطی کے طور پر نشاندہی کرتے ہیں۔ (آیت اللہ خمینی نے کہا تھا کہ ہم اس انقلاب کو ہمسایہ ملکوں میں بھی ایکسپورٹ کریں گے۔) دوسرا غیر اعلانیہ طور پر حکومتی اداروں کی طرف سے حمایت یافتہ "حزب اللہ" جیسے گروپوں کا عوام کے جان و مال اور حیثیت و آزادی" پر ناجائز گرفت کا خطرہ۔

آقائے خمینی سے دس سال پہلے امریکا کے ساتھ ٹکر لینے والے سید رضا زنجانی کے تشیع جنازے میں بعض ناپاک زبانوں کا "مردہ باد امریکا" کا نعرہ لگانا کتنی افسوس ناک بات ہے۔ اس عالم ربانی کے جنازے کو "مردہ باد منافق" کے نعروں کے ساتھ راہی قبرستان کرنے والے حزب اللہی دراصل شیطان کے آلہ کار تھے مگر وہ خود جانتے نہیں تھے۔ اس پست قسم کے لوگوں کو پالنے والی دنیا پر تُف!

آقائے خمینی خود سے سالہا پہلے استعمار کے ساتھ مبارزہ شروع کرنے والے مردِ مجاہد کی وفات پر اپنے کینے کا اظہار کئے بنا نہ رہ سکے۔ انہوں نے نہ تو مرحوم کے خاندان کو تسلیت کہا اور نہ ہی فاتحہ خوانی کی مجلس برپا کی۔ یہاں یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ آقائے خمینی کے مقابلے میں سید رضا زنجانی کا فکر و عمل علوی سیرت سے نزدیک تر ہے۔

باتشکر از ویب سایت فارسی دکتر محسن کدیور