اتوار، 1 مارچ، 2015

مرجعیت شیعہ کی پامالی

آیت اللہ خمینی کے پیروکار علماء نے جذبات کے زیر اثر انتظامی امور میں مہارت کو فقہی دانش پر سبقت دیتے ہوئے ایک جزوی مجتہد کو ولی فقیہ کا جانشین منتخب کیا جس کے لئے اجتہادِ مطلق بالفعل کا ہونا لازمی تھا۔

مرجعیتِ شیعہ کی پامالی
وضــاحت طــلبی
از
مقامِ رہبری حجت الاسلام والمسلمین  خامنہ ای

مصنف، محقق،  فلسفی، استاد جامعہ، دینی مفکر اور مجتہد آقائے ڈاکٹر محسن کدیوَر کا شمار حوزہ علمیہ قم کے بہترین اور قابل ترین علماء میں ہوتا ہے۔ انہوں نے حوزہ علمیہ قم سے درجہ اجتہاد اور تربیتِ مدرس یونیورسٹی تہران سے الٰہیات اور فلسفہ میں ڈاکٹریٹ کی ڈگری حاصل کی ہے۔ حال حاضر میں وہ امریکہ کی ریاست  شمالی کیرولائنا کے مشہور اور معتبر ڈیوک یونیورسٹی  میں علوم دینی کے مدعوپروفیسرکے طور پر خدمات انجام دے رہے  ہیں۔اب تک مختلف موضوعات پر ان کی متعدد کتابیں، تحقیقی مقالے اور آرٹیکل منظر عام پر آچکے ہیں جن کا مقصد زیادہ تر اسلام کے رحیمانہ اور حقوقِ انسانی پر مبنی  پہلوؤں کو اجاگر کرنا ہے۔
اپنی تازہ ترین کتاب بنام "مرجعیتِ شیعہ کی پامالی" میں انہوں نے آیت اللہ سید علی خامنہ ای کی مرجعیت کے بارے میں بحث کا ایک باب کھولا ہے۔ اپنی کتاب کا نام اپنے استاد آیت اللہ منتظری کی سن 1376 شمسی کی اس مشہور تقریر سے لیا ہے جس میں انہوں نے آقائے خامنہ ای پر چند بنیادی اور لاجواب قسم کے اعتراضات کرکے ان کی مرجعیت کو زیر سوال قرار دیا تھا۔ یاد رہے کہ اس تقریر کے بعد حکومت کے حامیوں نے آیت اللہ منتظری کے گھر، دفتر  اور درسگاہ پر حملہ کرکے شدید توڑ پھوڑ ، قرآن اور مذہبی کتابوں کی بے حرمتی اور طوفان بدتمیزی کا بازار گرم کیا تھا اور  یہیں سےان کی چھ سالہ نظربندی کا آغاز ہوا۔
آقائے محسن کدیور کی کتاب کا موضوع ان شواہد اور اسناد کی چھان بین کرنا ہے جو جمہوری اسلامی ایران کے دوسرے رہبر (آیت اللہ  خامنہ ای) کے توسط سے مقامِ مرجعیت حاصل کرنے کے لئے لازم مدارج کے طور پر استعمال ہوا ہے۔ انہوں نے اس بات پر تاکید کی ہے کہ اس کتاب میں  رہبر کی صرف "دینی مرجعیت" کے پہلو کو زیر تحقیق قرار دی گئی ہے۔
وہ معتقد ہیں کہ ان کو رہبری اور مرجعیت دونوں عہدے جمہوری اسلامی ایران کے ایک شاہ کلیداصول "نظام کی حفاظت  تمام واجبات سے واجب تر ہے" کے ذریعے حاصل ہوئے ہیں۔ یہ اصول جمہوری اسلامی ایران کے بانی آیت اللہ خمینی کے ایک قول پر مبنی ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ"نظام کی حفاظت کی خاطر اگر لازم ہوا تو احکام اسلامی کو بھی معطل کیا جا سکتا ہے
مجموعاً چار حصوں پر مشتمل یہ کتاب  آیت اللہ خامنہ ای کی نوجوانی سے شروع ہوکر موجودہ دور پر ختم ہوتی ہے، دوسرے لفظوں میں،  یہ کتاب چار حصوں میں اُن کی حجت الاسلامی کے دور سے شروع ہوکر اُن کے معتقدین کی طرف سے امام خامنہ ای کہلوانے کے دور تک کا احاطہ کرتی ہے۔  ان چار حصوں کے عنوانات حسب ذیل ہیں: (1) خطیبِ دانشمند : حجت الاسلام خامنہ ای (2) مقام معظم رہبری : آیت اللہ خامنہ ای (3) مرجع جائز التقلید : آیت اللہ العظمیٰ خامنہ ای (4) مرجعیت اعلیٰ کا جنون : امام خامنہ ای۔
کتاب کی ابتدا میں چند سوالات پیش کئے گئے ہیں جن کے متعلق مصنف کا کہنا ہے کہ انہوں نے ان سوالات کا جواب پانے کے لئے اپنی اس تحقیق کا آغاز کیا ہے۔ان کی نظر میں رہبر کی حجت الاسلامی سے مرجع اعلیٰ تک بے مثال سرعت کے ساتھ ارتقاء پانے کے عمل نے بعض سوالات اور شبہات کو جنم دیا ہے۔ مثلاً اس قسم کے سوالات کہ درس خارج اصول و فقہ کے حوالے سے رہبر کی تحصیل و تدریس کا سلسلہ کیسا تھا، اصول اور فقہ کے میدانوں میں ان کی کیا تالیفات ہیں، مقلدین سے وجوہاتِ شرعیہ کب سے اور کس بنا پر لینا شروع کیا، وہ کب سے مرجعیت کا خواب دیکھنے لگے اور انہوں نے کب سے فتویٰ دینا شروع کیا۔
آخر میں اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ آیت اللہ خمینی اپنی عمر کے آخری ایام میں اس بات کے معتقد تھے کہ رہبر کے لئے مرجع تقلید ہونا لازمی نہیں اور آئینِ جمہوری اسلامی پر نظرثانی  اور ترمیم کرنے کی ایک وجہ یہی تھی، اس کے باوجود کیوں جناب آقائے خامنہ ای اور آیت اللہ خمینی کے اکثر شاگردوں نے ان کے اس نظریئے کو ذرہ برابر اہمیت نہ دیتے ہوئے دوبارہ رہبری اور سیاسی مرجعیت کے لازم و ملزوم ہونے پر اکٹھے ہوگئے۔

(نوٹ برائے تبدیلی تاریخ: سال انقلاب ایران سن1357 شمسی بمطابق 1979ء ہے اور 14خرداد، سن 1368 شمسی بمطابق 4 جون 1989ءکو آقائے خامنہ ای مقامِ رہبری پر جلوہ افروز ہوئے۔)
خطیب دانشمند
مصنفِ کتاب، آقائے خامنہ کی جوانی کے ایام کو یاد کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اُن ایام میں اُن  مصروفیات کچھ اس قسم کی تھیں کہ زیادہ تر وقت سیاسی جلسوں سے خطاب کرنے اور دیگر سیاسی سرگرمیوں میں گزرتا تھا اور عملی طور پر اُن کے پاس اتنا وقت نہیں پچتا تھا کہ حوزہ علمیہ کے روایتی طریقوں کے مطابق اپنی تحصیلات جاری رکھتا۔
اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ انقلاب کی کامیابی تک کئی بار جیل جانے، شہر بدر ہونے ، روپوشی کی زندگی گزارنے اور ساتھ میں دوسرے مشغلوں جیسے رومان، شعر و شاعری، عربی معاصر ادبیات کے مطالعہ کے علاوہ بعض کتابوں کا ترجمہ کرنے، منبری کے فرائض انجام دینے، تفسیر قرآن و نہج البلاغہ کے پروگراموں جیسی مصروفیات کی وجہ سے آقائے خامنہ ای  زیادہ تر انقلابی تقریروں اور معارف اسلامی کو جدید انداز میں بیان کرنے والے لیکچروں کے لئے شہرت رکھتے تھے۔ اس پورے عرصے میں صرف دس سال کا دورانیہ  ایسا گزرا ہے جس میں فقہ کی سطوح عالی کی تدریس کا  انہیں موقع ملا ہے مگر مذکورہ بالا مسائل اور مصروفیات کی بنا پر دروس عدم تسلسل کا شکار رہتا تھا۔
اسی طرح، انقلاب کی کامیابی تک وہ نہ صرف اجتہاد کے دعویدار نہیں تھے بلکہ خود کو آیت اللہ خمینی کا مقلد اور کچھ دیگر موارد میں آیت اللہ منتظری کا مقلد کہتے تھے۔ درس خارج میں شرکت کے حوالے سے یہ بات قابل ذکر ہے کہ مشہد اور قم دونوں کے ادوار کو ملا کر بمشکل 6سے7 سال کا عرصہ بنتا ہے جس میں وہ  خالصتاً فقہ و اصول کے دروس میں مشغول رہے ہیں۔ البتہ انہیں اپنے کسی بھی استاد کی جانب سے اجتہاد کا اجازت  نامہ نہیں ملا ہے۔۔۔ اور سن 1357 شمسی تک (سوائے  40 صفحات پر مشتمل علم رجال کے موضوع پر ایک مقالہ کے)کوئی بھی فقہی و اصولی تصنیف ان کی طرف سے شائع نہیں ہوئی ہے۔ نتیجہ یہ کہ ان کی بحیثیت رہبر جمہوری اسلامی ایران منتخب ہونے ، یعنی ماہِ خرداد  سن 1368 شمسی تک، آقائے کدیور کے خیال میں وہ  قطعاً مجتہد نہیں تھے۔
مصنف نے دو ایسے موقعوں کی طرف اشارہ کیا ہے جہاں آیت اللہ خمینی نے آقائے خامنہ ای پرفقہی تنقید کی جبکہ وہ اس زمانے میں جمہوری اسلامی ایران کے صدر تھے۔
آقائے کدیور لکھتے ہیں کہ آقائے خامنہ ای  سن 1366 شمسی  کے دے نامی مہینے میں اپنے جمعہ کے خطبے میں آیت اللہ خمینی کے نظریئے کے مطابق ولایت مطلقہ فقیہ کی یوں وضاحت کرتے ہیں۔ "لازمی شروط کی برقراری کے لئے حکومتِ اسلامی کے اقدامات کا مطلب اسلام کے مسلمہ قوانین و احکام کو معطل کرنا نہیں۔۔۔ امام کا یہ فرمان کہ حکومت کارفرماپر ہر قسم کے شرائط لاگو کرسکتی ہے ، اس کا مطلب ہر شرط نہیں بلکہ وہ شرط ہے جو اسلام کے مسلّمہ احکام کی چاردیواری میں آتی ہے، نہ کہ اس سے باہر۔"
آیت اللہ خمینی نے اس وضاحت کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ "جناب عالی کے بیانات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپ حکومت کو ولایت مطلقہ کے معنوں میں، جوکہ خدا کی جانب سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو عطا کی گئی ہے اور احکام الٰہی میں نہایت اہمیت کا حامل ہے اور تمام احکام شرعیہ پر اسے برتری حاصل ہے، صحیح نہیں سمجھتے۔آپ کی طرف سے میرے قول کی یہ تعبیر کہ میں نے کہا ہے حکومت احکام الٰہی کے دائرے میں بااختیار ہے، مکمل طور پر میرے بیان کے برخلاف ہے۔ اگر حکومت کے اختیارات احکام فرعیہ الٰہیہ کی چاردیواری کے اندر ہے تو نبی اسلام صلی اللہ علیہ والہ وسلم کو تفویض ہونے والی حکومت الٰہیہ اور ولایت مطلقہ ایک بے معنی اوربیہودہ امر ہونا چاہیئے۔"
آقائے محسن کدیور معتقد ہیں کہ جو کچھ آقائے خامنہ ای نے کہا تھاایک صائب اور "فقیہ کی ولایت عامہ" کے اصول پر مبنی بیان ہے۔
ان کی یہ رائے اُن کے دو استادوں آیت اللہ میلانی اور آیت اللہ حائری یزدی کے فقہی نظریات پر مبنی تھی مگر ان کے دوسرے استاد آیت اللہ خمینی کے نظریہ ولایت فقیہ کے برخلاف تھی۔ اپنے موقف پر قائم رہتے ہوئے اس کا دفاع کرنے کی بجائے آقائے خامنہ ای فوراً پیچھے ہٹ گئے اور آیت اللہ خمینی کے موقف کو مسلماتِ دینی کا جزو مانتے ہوئے انہوں نے اقرار کیا کہ وہ مکمل طور پر اُن سے متفق ہیں۔ یہ ایک مجتہد کا شیوۂ عمل نہیں، ایک مجتہد اپنے استاد کے نظریئے کا احترام کرتے ہوئے اپنی فقہی رائے کا دفاع کرتا ہے۔
دوسرے واقعے کا تعلق کتاب آیاتِ شیطانی کے مصنف سلمان رشدی سے ہے جب آیت اللہ خمینی نے سلمان رشدی کے خلاف کفر کا فتویٰ جاری کرتے ہوئے اُسے واجب القتل قرار دیا۔ آقائے خامنہ ای نے سن 1367 شمسی میں اپنے ایک خطبے میں رہبر انقلاب آیت اللہ خمینی کے فتویٰ کی حمایت کرتے ہوئے کہا۔ "سلمان رشدی ممکن ہے توبہ کرے، کتاب لکھے، مسلمانان جہاں اور امام امت سے معافی مانگے اور اس کتاب سے اپنے تعلق کو جھٹلا دے، ایسی صورت میں ممکن ہے کہ لوگ اسے معاف کردیں"۔
آقائے کدیور کا کہنا ہے کہ جب اس اس نکتہ نظر کو، جوکہ اصولاً ایک فقہی نکتہ نظر ہونا چاہئے، بین الاقوامی میڈیا میں پذیرائی ملی تو آیت اللہ خمینی ایک مرتبہ پھر اس کے خلاف بیانیہ دیتے ہوئے میدانِ مخالفت میں کود پڑے اور آقائے خامنہ ای بارِ دیگر اپنے موقف سے پیچھے ہٹ گئے۔
آقائے کدیور اس بارے میں لکھتے ہیں کہ "آقائے خامنہ ای کا یہ نکتہ نظر دو حالتوں سے خارج نہیں: پہلی  یہ کہ انہوں نے آیت اللہ خمینی کا فتویٰ نقل کیا ہے جوکہ امامیہ کا مشہور قول ہے، دوسری یہ کہ  انہوں نے اپنی ذاتی رائے بیان کی ہے۔ پہلی حالت میں انہوں نے یقیناً خطا کیا ہے کیونکہ آیت اللہ خمینی کی رائے یہ ہے کہ مرتد فطری کی توبہ قابل قبول نہیں ۔ دوسری حالت میں انہیں چاہیئے تھا کہ اپنے نکتہ نظر کے حق میں دلیل قائم کرتا اور اپنے فتویٰ  کا، جوکہ ایک پسندیدہ سخن ہوسکتی تھی، دفاع کرتا۔ البتہ امام جمعہ کی حیثیت سے آقائے خامنہ ای کی ذمہ داری   یہ تھی کہ وہ ولی فقیہ کی رائے یا قولِ مشہور امامیہ کو  بیان کرے نہ کہ اپنی ذاتی رائے۔ آقائے خامنہ ای خود کو آیت اللہ خمینی کے  فتویٰ کو لوگوں کے لئے بیان کرنے کا پابند سمجھتا تھا اور اس حوالے سے وہ شروع سے اپنی کوئی رائے ہی نہیں رکھتا تھا کہ وہ اس کا دفاع کرتا۔"
آقائے کدیور لکھتے ہیں کہ "وہ شخص کیسے مجتہد کہلایا جا سکتا ہے  جو رہبری کے لئے منتخب ہونے سے ساڑھے تین ماہ پہلے یہ تک نہیں جانتا تھا کہ فقہ امامیہ کا مشہور قول یا ولی فقیہ کا فتویٰ یہ ہے کہ مرتد فطری کا واجب القتل ہونا توبہ کے ذریعے ختم نہیں ہوتا بلکہ اُس کا توبہ قابلِ قبول ہی نہیں ہوتا۔"
آگے چل کر مصنف نے اپنے موقف کی تائید میں آیت اللہ خمینی کے اُن مکتوبات کو بھی بطور گواہ پیش کیا ہے جو آقائے خامنہ ای کے نام لکھے گئے یا جن کا رابطہ کسی نہ کسی شکل میں آقائے خامنہ ای کے ساتھ بنتا ہے اور کہا ہے کہ کسی بھی مکتوب سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ آیت اللہ خمینی، آقائے خامنہ ای کو مجتہد سمجھتے تھے۔
آیت اللہ خمینی کے وصیت نامہ سے اقتباس
مصنف نے آیت اللہ خمینی کے وفات کے بعد مجلس خبرگان کی تشکیل اور انتخاب رہبرِ دوم جمہوری اسلامی ایران کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے آیت اللہ خمینی کی اس تحریر کا ذکر کیا ہے۔
"اس وقت جبکہ میں زندہ ہوں، واقعیت سے دور کچھ باتوں کو مجھ سے منسوب کیا جاتا ہے اور ممکن ہے کہ میرے بعد ان باتوں کی مقدار میں اضافہ ہو، لہذا آپ سے میری یہ گزارش ہے کہ جو کچھ مجھ سے نسبت دی گئی ہے یا دی جاتی ہے، وہ میری طرف سے موردِ تصدیق نہیں، مگر یہ کہ میری آواز ہو، یا ماہرین کے توسط سے تصدیق شدہ میری دستخط شدہ تحریر ہو، یا جو کچھ میں نے جمہوری اسلامی کے ٹی  وی پر کہا ہو۔"
مصنف لکھتا ہے کہ اس مکتوب کے آئینے میں، انتخابِ رہبری کے لئے مجلس خبرگان کی طرف سے ختمی فیصلہ والے دن آقائے ہاشمی رفسنجانی  کی زبانی  آقائے خامنہ ای کی رہبری کے حق میں آیت اللہ خمینی کا تائیدی قول قابل اعتبار نہیں۔ اسی طرح ، آقائے احمد خمینی کا اپنے والد کا یہ قول نقل کرنا کہ آقائے خامنہ ای ایک مجتہد مسلّم ہے، اعتبار سے ساقط ہوجاتا ہے۔
اس حوالے سے نقل کئے جانے والے اقوال میں سے ایک یہ ہے کہ جب آیت اللہ خمینی کی زندگی کے آخری مہینوں میں حکومت کے اعلیٰ عہدیداران ؛ صدر مملکت (آقائے خامنہ ای)، رئیس مجلس خبرگان (آقائے رفسنجانی)،وزیر اعظم (آقائے میر حسین موسوی) اور چیف جسٹس (آقائے موسوی اردبیلی)اُن کے پاس جمع تھے اور قائم مقام رہبری کے عہدے سے آیت اللہ منتظری کی علیٰحدگی کے بعد پیش آنے والے  خلا کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کر رہے تھے۔ اس وقت آیت اللہ خمینی حاضرین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ "انہی میں سے ایک اس عہدے کے لئے مناسب ہے"۔
آقائے کدیور لکھتے ہیں کہ آیت اللہ سید عبدالکریم موسوی اردبیلی (اس وقت کے چیف جسٹس) سے بھی یہی قول نقل ہوا ہے  کہ امام خمینی نے متبادل فقیہ کے انتخاب کے حوالے سے اُن کی تشویش کے جواب میں کہا  "آپ آقایان جیسے لوگوں میں  سے ایک" یہ کہہ کر انہوں نے آقائے خامنہ ای، آقائے ہاشمی رفسنجانی اور آقائے موسوی اردبیلی کی طرف اشارہ کیا۔
اسی طرح آیت اللہ خمینی کی بیٹی نے بھی سن 1392 شمسی میں رہبر کو ایک خط میں یہ یاددہانی کرائی کہ "امام نے جناب عالی کے نام کے بعد اِن (ہاشمی رفسنجانی) کا نام بھی(مقامِ رہبری کے لئے)  لیا تھا"۔
آقائے کدیور نے مجلس خبرگان میں انتخاب رہبری کے دن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے "اس دن آیت اللہ خمینی کے پیروکار علماء نے جذبات کے زیر اثر ایک تاریخی انتخاب عمل میں لایا۔ انہوں نے انتظامی امور میں مہارت کو فقہی دانش پر سبقت دیتے ہوئے ایک جزوی مجتہد کو ولی فقیہ کے جانشین کے طور پر منتخب کیا جس کے لئے اجتہادِ مطلق بالفعل کا ہونا لازمی تھا۔ آیت اللہ خمینی کے شاگردوں نے رہبری کے عہدے کو اپنے مجموعے سے باہر جانے نہیں دیا۔آیت اللہ خمینی اپنے  ہم عصر مراجع عظام میں سے کسی کو بھی رہبری کے لئے موزون نہیں سمجھتے تھے، اپنے شاگردوں میں سے مجتہد اعلم (آیت اللہ منتظری) بھی ان کے خیال میں راہِ انقلاب سے منحرف ہوچکے تھے۔ انتظامی امور میں تجربہ رکھنے والے دیگر روحانیوں میں کوئی مجتہد مطلق پایا نہیں جاتا تھا، لہذا بات جزوی مجتہد تک پہنچ گئی"۔
جزوی مجتہد وہ مجتہد ہوتا ہے جو فقہ کے تمام ابواب میں صاحبِ رائے نہیں ہوتا بلکہ بعض موارد میں صاحب رائے ہوتا ہے اور بعض میں نہیں۔ تمام فقہی امور میں صاحب رائے مجتہد، مجتہدِ مطلق کہلاتا ہے۔
اجتہادِ مطلق -  کتاب سے اقتباس
اجتہاد کے دو درجے ہوتے ہیں۔ (1) عملیاتی اجتہاد، رہبری کی حد تک (2) مرجعیت اور صلاحیت فتویٰ۔ دونوں اجتہاد مطلق کے درجات ہیں۔ رہبری کی حد تک کفایت کرنے والا عملیاتی اجتہاد، اجتہاد ِمطلق کے مقابلے میں نہیں۔ آقائے  خامنہ ای نے درجہ اول کے لئے صادر ہونے والے سن 1369 شمسی کے گواہی ناموں کو عوام فریبی سے کام لیتے ہوئے فتویٰ دینے اور مرجعیت کے لئے استعمال کیا۔ دلچسپ  بات یہ ہے کہ آیت اللہ مشکینی اور آیت اللہ مومن نے آقائے خامنہ ای کے حق میں درجہ اوّل کے لئے تو گواہی نامہ تحریر کیا لیکن دونوں حضرات ان کی صلاحیت فتویٰ اور مقامِ مرجعیت کے مخالف تھے۔
مرجعیت کا دعویدار ہر مجتہد، جوتقلید کے لئے اعلمیت کو شرط مانتا ہے، خود اعلمیت کا مدعی بھی ہوتا ہے۔ مرجعیت اعلیٰ کے معنی صرف دعوائے اعلمیت ہی  نہیں ہے بلکہ مرجعیت کو ایک شخص تک ہی محدود سمجھنا ہے۔ پچھلی صدی کے دوران شاید مرحوم آیت اللہ العظمیٰ بروجردی ہی وہ واحد شخصیت ہیں جو اس مقام تک پہنچ سکے ہیں۔ سن 1376 شمسی میں آقائے خامنہ ای مرجعیت کو خود تک محدود کرنے (مرجعیت اعلیٰ) اور باقی مراجع عظام کو حذف کرنے کے لئے سرگرم تھے کہ آیت اللہ منتظری اور آیت اللہ آذری قمی نے اس کی شدید مخالفت کی۔ یہ کتاب کا بدیع نکتہ ہے۔ آقائے خامنہ ای نے سن 1373 شمسی میں باقاعدہ طور پر اپنی مرجعیت (و اعلمیت) کا اعلان کیا اور سن 1376 شمسی میں اپنی مرجعیت اعلیٰ کو عملی جامہ پہنانے پر کمربستہ تھے کہ حوزہ علمیہ قم کے دو بااثر مجتہدین کے اعتراض نے اس عمل کو موقوف کردیا۔
مجلس خبرگان اور رہبر دوم کا انتخاب
آقائے محسن کدیور کی نظر میں، مجلس خبرگانِ رہبری نے سن 1368 شمسی میں رہبر کے انتخاب کے حوالے سے آئین جمہوری اسلامی کی تین واضح خلاف ورزیاں کی ہیں۔  اول: شرط فتویٰ اور مرجعیت بالفعل کے فقدان کے غیر قانونی ہونے کو نظر انداز کرنا۔ آیت اللہ خمینی کی وفات کے بعد آئین جمہوری اسلامی تجدید نظر اور ترمیم کے مرحلے سے گزر رہا تھا، تاہم اس وقت تک آئین میں رہبری کے لئے مرجعیت لازمی شرط تھی جبکہ آقائے خامنہ ای مرجع نہیں تھے۔ (1358 کے آئین کے آرٹیکل 109 کی خلاف ورزی) دوم: کم از کم ابتدائی سات ماہ  کے عرصے تک آقائے خامنہ ای کی غیر قانونی رہبری کے عبوری ہونے کا اعلان نہ کرنا۔ سوم: اجتہادِ مطلق  یعنی فقہ کے مختلف ابواب میں فتویٰ دینے کے لئے لازم علمی صلاحیت کے فقدان سے چشم پوشی کرنا۔
آقائے کدیور مزید لکھتے ہیں کہ مجلس خبرگان کی طرف سے منتخب شدہ رہبر میں شرعی و قانونی شرائط کے فقدان پر شدید اعتراضات کی وجہ سے آقائے خامنہ ای نے اپنی رہبری کے آغاز کے ایک سال بعد مدد کے لئے آیت اللہ خمینی کے باقی شاگردوں کا دامن پکڑ لیا۔ بانی جمہوری اسلامی کے سات شاگردوں؛ آقایان محمد یزدی، عبداللہ جوادی آملی، محمد فاضل لنکرانی، محمد مومن قمی، علی مشکینی، یوسف صانعی اور ابراہیم امینی نے بالترتیب خرداد ماہ سے شہریور ماہ سن 1369 شمسی تک آقائے خامنہ ای کے اجتہاد کو رہبری کا عہدہ سنبھالنے کے لئے لازم حد تک ہونے کی تحریری تائید کی۔
قابل توجہ ہے کہ ان افراد میں سے اکثر، رہبر کی جانب سے حکومت کے  اعلیٰ عہدوں پر متعین تھے۔ جیسے چیف جسٹس سپریم کورٹ، ممبر گارڈین کونسل اور امام جمعہ۔ ان میں سے ایک نفر اس دور کا اُبھرتا ہوا جوان مرجع تقلید شمار ہوتا تھا (جسے اوج پر پہنچنے کے لئے حکومت کی تائید درکار تھی)۔ ان سات گواہی ناموں میں سے پانچ گواہی نامے رہبری کا عہدی سنبھالنے کے لئے لازم اجتہاد سے زیادہ پر دلالت نہیں کرتے تھے۔
مرجع جائز التقلید
رہبری کے لئے لازم جزوی اجتہاد اور مرجعیت کی صلاحیت کے لئے لازم اجتہادِ مطلق میں فرق پایا جاتا ہے۔ آقائے خامنہ ای کے حق میں صادر ہونے والے قبل الذکر پانچ گواہی نامے صرف رہبری کے لئے لازم جزوی اجتہاد کی گواہی دیتے ہیں، جبکہ ان گواہی ناموں کو اجتہاد مطلق کی تصدیق کے طور پر استعمال کرنا، عوام فریبی کی واضح مثال ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ سن 1372 شمسی میں بیروت سے پہلی مرتبہ شائع ہونے والی آقائے خامنہ ای کی" کتابِ استفتاءات" میں چھپنے والےگواہی نامےدراصل اُن کی رہبری کے حوالے سے پائے جانے والے شک و تردید کو رفع کرنے اور اسے مشروعیت بخشنے کے لئے صادر ہوئے تھے تاہم بعد میں مقامِ مرجعیت و فتویٰ کے افتتاح کے لئے استعمال کرئے ہوئے  اس کتاب کی زینت بنائے گئے۔
جس نکتے کی طرف آقائے  کدیور اشارہ کرنا چاہتے ہیں وہ یہ ہے کہ "کتابِ استفتاءات میں فتویٰ کے عنوان سے جو کچھ چھاپا گیا ہے اس میں اکثر استفتاءات کے جواب میں مکلفین کو آیت اللہ خمینی کے فتویٰ اور کتاب تحریر الوسیلہ کی طرف رجوع دیا گیا ہے۔ تاریخ تشیع میں ایسا پہلی بار ہوا ہے کہ کسی مجتہد کے فتویٰ کو نقل کرنے والا، خود مرجع تقلید کا مدعی بن بیٹھا ہے"۔
سیاسی طاقت اور مذہبی تعصب کا منحوس جوڑ
آقائے کدیور کے مطابق، جزوی مجتہد کی طرف سے سیاسی قوت کی حمایت کے ساتھ مرجعیت کا دعویٰ جہانِ تشیع کے مراجع عظام اور علمائے کرام کی مخالفت سے روبرو ہوا ۔ ان اعتراض کنندگان میں سے ایک بیروت کے مردِ شجاع، صاحب فضیلت، نامور مجتہد آیت اللہ سیدمحمد حسین فضل اللہ تھے جوکہ، آقائے کدیور کے بقول ،اس مخالفت کے نتیجے میں آقائے خامنہ ای کی نظروں سے گر گئے۔ آیت اللہ سیدفضل اللہ کی مرجعیت کو آقائے خامنہ ای کی مرجعیت کے لئے ایک خطرہ تشخیص دیتے ہوئے حکومت جمہوری اسلامی نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے ساتھ ان کو شیعیانِ جہان کی نظروں سے گرانے کے لئے  اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرنا شروع کیا؛ ان کے مخالفین کو تقویت دے کر ان کے خلاف بھڑکایا گیا، حزب اللہ کے لیڈروں کو ان کے خلاف کر لیا گیا۔ علاوہ ازیں ان کے نظریات اور افکار کو اس انداز میں اچھالا گیا جیسے کہ وہ  منکر اہل بیت ہو ۔  ان تمام ریشہ دوانیوں کا مقصد آیت اللہ فضل اللہ کے مقام کو گھٹا نا اور نتیجتاً رہبر کے مقام کو بلند کرنا  تھا تاکہ مرجعیت حکومت ِ جمہوری اسلامی کے ہاتھ سے خارج نہ ہو۔ سیاسی طاقت اور مذہبی تعصبات نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھاما اور یوں جمہوری اسلامی اپنے ہدف میں کامیاب اور آیت اللہ فضل اللہ کا اجتہاد اور ان کا شیعہ ہونا زیر سوال چلا گیا۔
وزارتِ خفیہ امور میں علماء کا شعبہ
آقائے خامنہ ای کی مرجعیت کی علی الاعلان مخالفت کرنے والوں میں سے ایک آیت اللہ خمینی کے شاگردِ نامدار، آیت اللہ حسین علی منتظری تھے۔  اس حوالے سے مصنف، آقائے منتظری کا قول یوں نقل کرتے ہیں "سن 1372 شمسی، آبان کے مہینے میں آیت اللہ مومن قمی کے توسط سے آقائے خامنہ ای کو ایک تحریری پیغام دیتے ہیں جس میں انہیں اُن شرعی میدانوں میں دخل اندازی سے باز رہنے کی تنبیہ کی جاتی ہے جن کی صلاحیت آقائے خامنہ ای  میں موجود نہیں، یعنی فتویٰ، مرجعیت اور وجوہِ شرعیہ میں تصرف۔ مزید برآں،  وہ حکمِ رہبری کے تحت بعض سرکاری سکیورٹی اداروں یعنی علماء کی خصوصی عدالت، وزارتِ خفیہ امور اور سپاہ پاسداران کے توسط سے حوزہ ہائے علمیہ کی خودمختاری کے منافی اقدامات پر سخت تشویش کا اظہار کرتے ہیں اور پہلی بار وزارتِ خفیہ امور میں علماء کے شعبے کی تشکیل کی خبرکو فاش کرتے ہیں جس کے ذمے دو کام لگائے گئے ہیں: پہلا کام، تنقید کرنے والے خودمختار مراجع عظام کو بدنام  کرکے لوگوں کی نظروں سے گرانا ، دوسرا کام، مقامِ رہبری کی مرجعیت کو ترویج دینا اور اسے مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا"۔
آقائے کدیور کے مطابق، درواقع مذکورہ  بالاسات گواہی نامے بھی  وزارت خفیہ امور میں اسی ادارے کی کوششوں کا نتیجہ ہے۔
آقائے کدیور کی کتاب کے مطابق، اجتہاد کی اجازت پر سات گواہی ناموں کے حصول پر بات ختم نہیں ہوئی بلکہ آیت اللہ خوئی اور آیت اللہ اراکی کی وفات کے بعد آقائے خامنہ ای کی مرجعیت کے لئے مذکورہ حکومتی ادارےدوبارہ سرگرم ہوجاتے ہیں اور گیارہ کے قریب   گواہی نامے قم اور تبریز کے ائمہ جمعہ اور مدرسین حوزہ علمیہ سے لکھوا کر قومی اخبارات میں شائع کئے جاتے ہیں۔ یاد رہے کہ پہلے مرحلے کے سات گواہی نامے آقائے خامنہ ای کے اجتہاد اور رہبری کو مشروعیت بخشنے کے لئے جمع کئے گئے تھے جبکہ دوسرے مرحلے کے گواہی ناموں کا مقصد ان کی مرجعیت اور جواز تقلید پر مہرِ تصدیق ثبت کرنا تھا۔
آیت اللہ خوئی کی وفات کے بعد جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ قم کی طرف سے 6 افراد کو بعنوان مرجع تقلید انتخاب  کرنے کے بعدیہ طے پاتا ہے کہ مجتہدِ اعلم کے انتخاب اور اعلان کے سلسلے میں مقامِ رہبری سے مشورہ کیا جائے۔  اس ملاقات میں آقائے خامنہ ای مرجعیت کو محدود نہ کرنے کی تاکید کرتے ہوئے کسی کا نام اعلم کے طور پر اعلان کرنے کی ممانعت کرتے ہیں اور اشارتاً اس فہرست میں مزید افراد کے اضافہ ہونے کا عندیہ دیتے ہیں۔  اس نشست کا انجام یہ ہوتا ہے کہ جامعہ مدرسین اپنے منتخب مراجع کی فہرست کو دبانےاور رائے شماری کی نشست کی رویداد اور نتائج کو خفیہ رکھنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔
آقائے کدیور لکھتےہیں "اگر جامعہ مدرسین، رہبری سے جدا ایک خودمختار ادارہ ہے تو امورِ مرجعیت میں ان سے اجازت لینے کا کیا مقام بنتاہے؟ جب آقائے خامنہ ای  اس فہرست میں اپنا نام نہیں دیکھتے تو فہرست کومخفی رکھنے پر مجبور کیا جاتا ہے"۔
اگلے سال آیت اللہ اراکی کی وفات کے بعد مرجعیت کا مسئلہ دوبارہ جامعہ مدرسین کے سامنے پیش ہوتا ہے۔ اس میٹنگ میں مرجعیت کے بارے میں گفت و شنید کے کے دوران بعض افراد کی جانب سے یہ تجویز دی جاتی ہے کہ آقائے خامنہ ای کا نام بھی  پہلے سے منتخب 6 افراد کی فہرست میں شامل کیا جائے ۔تعجب یہ کہ تمام اصولوں کو روندتے ہوئے یہ کام انجام پاتا ہے اور آقائے خامنہ ای کا نام اس فہرست میں بڑی آسانی سے شامل کردیا جاتا ہے، یوں سن 1373شمسی آذر کے مہینے کی 11 تاریخ کو جامعہ مدرسین  حوزہ علمیہ قم کی طرف سے اعلان ہونے والے سات مراجع تقلید کی فہرست میں آقائے خامنہ ای کا نام تیسرے نمبر پر نظر آتا ہے۔
جامعہ مدرسین نے سات افراد کا نام بطور مرجع تقلید اعلان کرکے کس طرح اپنے آئین نامے کی خلاف ورزی کی، اس پر دلیل لاتے ہوئے آقائے کدیور نے لکھا ہے، "اگرچہ یہ بیانیہ جامعہ مدرسین کی جانب سے نشر ہوا ہے مگر اس پر صرف ایک ممبر کے دستخط موجود ہیں جبکہ قانون کے مطابق ممبران کی اکثریت کے دستخطوں کے بغیر یہ بیانیہ فاقد اعتبار ہے۔ جامعہ مدرسین قم و جامعہ روحانیتِ مبارز تہران اور علماء سے مربوط حکومت کے دوسرے اداروں نے  جو قرارداد پاس کیا درج ذیل دلائل کی بنا پر تاریخ تشیع میں ایک بدعت شمار ہوتی ہے: پہلی دلیل یہ کہ  فاقدِ شرائط افراد کو مجتہدِ جامع الشرائط کے عنوان سے پیش کرنا، دوسری یہ کہ صرف سات افراد کا نام بعنوانِ مرجع جائز التقلید اعلان کرناجبکہ ان سے اعلم تر اور افقہ تر مجتہدین حوزہ علمیہ قم ،حوزہ علمیہ نجف اور حوزہ علمیہ لبنان میں موجود تھے، کیا یہ مراجع عظام ممنوع التقلید تھے؟ تیسری یہ کہ حوزہ علمیہ کے روایتی اصولوں سے روگردانی کرنا، یعنی حوزہ  اپنے روایتی اصولوں کے مطابق اس بات کا ذمہ دار تھا کہ مقلدین کو تذبذب  اور بے یقینی کی کیفیت سے بچانے کے لئے ایک  فردمجتہد اعلم کا انتخاب  کرتا، نہ کہ اعلم کا انتخاب کئے بغیر کئی افراد کے ناموں کا اعلان کرتا"۔
آقائے کدیور کی نظر میں مرجع تقلید کی حیثیت سے آقائے خامنہ ای کی طرف سے جاری شدہ بعض فتوے "بے پایہ اور خطرناک" ہیں۔
بعنوانِ مثال، 1392 شمسی، مرداد کے مہینے میں آقائے خامنہ ای کی طرف سے جاری ہونے والا  یہ خطرناک اور بے پایہ فتویٰ نمونے کے طور پر قابلِ ذکر ہے جس میں انہوں نے حکام بالا پر علی الاعلان تنقید کو حرام قرار دیا ہے۔ ان کے فتویٰ کے مطابق "حکام کے ظلم و ستم سے عوام کو آگاہ کرنا یا اس کا عوامی سطح پر، پرچار کرنا ایک بیہودہ و ناپسندیدہ عمل ہے اور اگر فتنہ و فساد اور حکومت اسلامی کی کمزوری کا سبب بنے تو حرام ہے"
یہ فتویٰ تاریخ تشیع میں ایک بدعت اور اسلام کے مسلّمہ تعلیمات کے خلاف ہے۔ اس فتویٰ کا صرف ایک ہی مقصد نظر آتا ہے یعنی تنقید ممنوع! اس قسم کے فتووں پر عمل کا تلخ نتیجہ عالم اسلام میں  آمرانہ حکومت کی صورت میں ظاہر ہوگا۔
آقائے خامنہ ای کی مرجعیت کی داستان چار قدموں پر مشتمل تھا۔ پہلا قدم نظام کی خدمت میں ایک توانا خطیب جو نہ اجتہاد کا مدعی تھا  نہ رہبری کا، اور مرجعیت کا تو خواب بھی نہیں دیکھتا تھا: حجت الاسلام والمسلمین خامنہ ای۔ دوسرا قدم مصلحت نظام کی بنیاد پر رہبری اور ولایت فقیہ کا عہدہ: مقامِ معظم رہبریآیت اللہ خامنہ ای ۔ تیسرا قدم مرجعیت کے لئے منصوبہ بندی سن 1368 شمسی سے شروع اور 1373شمسی میں اس کا باقاعدہ اعلان: مرجع جائز التقلید آیت اللہ خامنہ ای ۔ چوتھا قدم مرجعیت اعلیٰ کے عہدے کی طرف پرواز سن 1376شمسی سے شروع: امام خامنہ ای۔البتہ آخری منصوبے کی کامیابی جامعہ مدرسین حوزہ علمیہ کی طرف سے پہلے سے اعلان شدہ عمررسیدہ مراجع کی وفات تک التوا کا شکار رہے گا۔
اس پوری داستانِ جفا کی ذمہ داری صرف آقائے خامنہ ای  پر ہی عائد نہیں ہوتی بلکہ ان کے یار و یاور اور دست و بازو بننے والے  مکتبِ آیت اللہ خمینی کے باقی علماء بھی "مرجعیتِ شیعہ کی پامالی" میں برابر کے شریک ہیں۔
(باتشکر از علی محمدی بی بی سی فارسی)

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں