ہفتہ، 25 اپریل، 2015

نظام ولایت فقیہ - بلائے جان ملت

انقلاب ایران کے ٹھیک دس سال بعد 
نظام ولایت فقیہ کے توسط سے ہونے والا قتلِ عام
 مقدمہ چلائے بغیر تختہ دار پر لٹکا دیئے جانے والوں کی دلسوز داستان
آیت اللہ منتظری کی زبانی
آیت اللہ منتظری کی یادداشتوں سے ماخوذ اس انٹرویو میں انقلاب کے ابتدائی سالوں میں آیت اللہ خمینی کے پیروکاروں کے توسط سے لکھی جانے والی موت کی یہ داستان قارئین کی خدمت میں حاضر ہے۔ جو لوگ آیت اللہ منتظری کو نہیں جانتے ان کے لئے عرض ہے کہ آیت اللہ خمینی کے بعد انقلاب ایران میں سب سے زیادہ موثر کردار ادا کرنے والا شخص آیت اللہ منتظری کے سوا اور کوئی نہیں ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد ان کی بے لوث قربانیوں اور اعلیٰ علمی صلاحیتوں کی وجہ سے آیت اللہ خمینی کی جانب سے وہ قائم مقام رہبری کے عہدے کے لئے منتخب کر لئے گئے، یعنی جمہوری اسلامی ایران کی حکومت میں آپ سیکنڈ اِن کمانڈ تھے۔
آیت اللہ خمینی نے ان کے بارے میں ایک بہت قدآور جملہ کہا ہے "شما برج بلند اسلام ہستی: آپ اسلام کے بلند مینار ہیں"۔ شاہ کی برطرفی، انقلاب کی کامیابی، حکومت کی تشکیل، حکومتی آئین کی تیاری اور ہر اہم کام میں آیت اللہ خمینی کے شانہ بشانہ تھے۔ کوئی ان کی اہمیت کا اندازہ لگانا چاہے تو اُن کا  سب سے پہلا قائم مقام رہبری ہونا ہی کافی ہے، ایک حکومت کے اندر اتنا بڑا عہدہ کسی کو مفت میں نہیں ملتا۔
1367 کی پھانسیوں کے بعد آیت اللہ منتظری اور آیت اللہ خمینی میں فاصلے بڑھنے لگے کیونکہ آیت اللہ منتظری نے ان پھانسیوں پر اعتراض کیا تھا اور انہیں غیر شرعی کہا تھا۔ جبکہ آیت اللہ خمینی کا یہ خیال تھا کہ آیت اللہ منتظری ایک سادہ لوح شیخ ہیں اور سیاست کے الفبا سے ناآگاہ۔ اس لئے انہیں قائم مقام رہبری سے برطرف کرنے کے لئے اقدامات کا آغاز وہیں سے شروع ہوا اور آخر میں ان پر ضد انقلاب، منحرف، سادہ لوح، ایجنٹ، دوسروں کے ایجنڈے پر کام کرنے والا وغیرہ جیسے الزامات لگا کر قائم مقامی سے معزول کر دیا، مگرآیت اللہ منتظری نے حق گوئی اور بے باکی کے شیوہ کو نہیں ترک نہیں کیا اور آخر عمر تک جمہوری اسلامی  میں ہونے والی نا انصافیوں، کوتاہیوں اور لغزشوں  کی مخلصانہ نشاندہی کرتے رہے، اگرچہ انہیں اس کی بہت بھاری قیمت ادا کرنی پڑی۔ انہوں نے خود کو فدائے جمہوری اسلامی نہیں کیا بلکہ اس کوشش میں اپنی باقی زندگی گزار دی کہ جمہوری اسلامی کے ذمہ داران  ملک کی تدبیر میں دینِ اسلام اور شریعت محمدی کی پیروی کو اپنا شیوہ بنائیں۔
اسی سلسلے میں انہوں نے ایک اعتراض آمیز خط آیت اللہ خمینی کو لکھا اور پھانسیوں کے سلسلے میں ہونے والی بے قاعدگیوں اور مظالم کی طرف اشارہ کیا اور اصلاح کی اپنی سی کوشش کر ڈالی۔ آئے دیکھتے ہیں کہ اس مخلصانہ مشورے کا ارباب اقتدار نے کیا جواب دیا اور کیا ردعمل دکھایا۔
سوال جواب کی صورت میں آیت اللہ حسین علی منتظری کا ایک انٹرویو پیش خدمت ہے
س: جنابعالی نے گویا امام خمینی (رضوان اللہ علیہ) کو مرصاد آپریشن –  فروغِ جاویدان-  میں جمہوری اسلامی پر منافقین کے حملے کے بعد زندانوں میں موجود منافقین کو دی جانے والی پھانسیوں کے حوالے سے ایک مکتوب لکھا تھا۔ اس سلسلے میں یہ فرمائیے کہ معاملہ کیا تھا اور آپ نے اس خط کو لکھنے کی ضرورت کیوں محسوس کی؟
ج: جی ہاں، جیسا کہ آپ نے فرمایا مجاہدین خلق نے جب عراق کی مدد سے جمہوری اسلامی ایران پر حملہ کر دیا تو مرصاد آپریشن عمل میں آیا جس میں کچھ حملہ آور مارے گئے اور کچھ کو قیدی بنالیا گیا اور اُن پر مقدمہ چلا کہ ہماری گفتگو ان کے بارے میں نہیں۔ لیکن جس چیز کی وجہ سے میں وہ خط لکھنے پر مجبور ہوا وہ یہ تھا کہ اسی زمانے میں بعضوں نے "مجاہدین خلق" کی کہانی کو سرے سے ہی ختم کرنے کی ٹھان لی تھی تاکہ ان کے بقول مجاہدین سے جان ہی چھوٹ جائے۔ اس مقصد کے لئے انہوں نے حکومت کے قید خانوں میں پہلے سے (مرصاد آپریشن سے پہلے) موجود منافقین کے متعلق امام سے ایک حکم نامہ لکھوایا کہ ہر علاقے کے سرکاری وکیل، قاضی اور خفیہ ایجنسی کے نمائندے کے صلاح و مشورے اور تینوں کی اکثریتی رائے سے اگر انہوں نے تشخیص دیا کہ وہ قیدی منافقین اپنے سابقہ موقف پر قائم ہیں تو وہ موت کے گھاٹ اتار دیئے جائیں، یعنی ان تین افراد میں سے دو کا خیال یہ ہو کہ فلاں شخص اپنے موقف پر قائم ہے تو اُسے مروا دیا جائے خواہ سرکاری عدالت کی طرف سے اسے ایک سال یا دو سال یا پانچ سال یا اس سے زیادہ قید کاٹنے کی سزا دی جا چکی ہو۔ امام سے منسوب اس حکم نامہ میں تاریخ درج نہیں ہے مگر یہ جمعرات کو لکھا گیا تھا، ہفتے کے روز ایک قاضی کے توسط سے مجھ تک پہنچا، وہ قاضی کافی پریشان تھا۔ میں نے حکم نامہ  کا مطالعہ کیا، حکم نامہ کا  لب و لہجہ بہت جارحانہ تھا اور مرصاد میں مجاہدین خلق کے حملے کے ردعمل میں لکھا گیا تھا اور شنید ہے کہ حاج احمد آقا کی لکھائی ہے۔ البتہ چونکہ یہ حکم نامہ تمام قاضیوں کو بھیجا جا چکا ہے اس لئے اگر میں یہ آپ کے لئے پڑھ دوں تو کوئی مضائقہ نہیں، تاکہ عین واقعیت روشن ہوجائے، حکم نامہ کا متن کچھ یوں ہے:
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
چونکہ خائن منافقین کسی بھی حال میں اسلام پر اعتقاد نہیں رکھتے اور جو کچھ کہتے ہیں ان کا حیلہ و نفاق ہے اور اُن کے لیڈروں کے اقرار کی وجہ سے وہ دین اسلام سے مرتد ہوچکے ہیں، مزید برآن، ملک کے شمال، جنوب اور مغرب میں عراقی بعث پارٹی کی مدد سے ہمارے خلاف اُن کی کلاسیکی جنگوں اور جھڑپوں کی وجہ سے، نیز ہماری مسلمان ملت کے خلاف صدام کے لئے ان کی جاسوسی کو مدنظر رکھتے ہوئے، عالمی استکباری طاقتوں کے ساتھ اُن کے رابطے اور نظام جمہوری اسلامی کی تشکیل کی ابتدا سے اب تک اُن کی بزدلانہ حملوں کو مدنظر رکھتے ہوئے پورے ملک کے تمام زندانوں میں قید وہ لوگ جو اپنے منافقانہ موقف پر اصرار کرتے رہے ہیں اور  اب بھی کرتے ہیں، دشمن خدا اور سزائے موت کے مجرم ہیں۔ اس موضوع کی تشخیص بھی تہران میں آقایان حجت الاسلام نیّری دامت افاضاتہ (قاضی شرع) جناب آقائے اشرافی (سرکاری وکیل تہران) اور وزارت خفیہ امور کے ایک نمائندے کی اکثریتی رائے سے دی جائے گی، اگرچہ احتیاط اجماع میں ہے۔ اسی طرح، ملک کے تمام صوبوں کے دارالخلافہ کے زندانوں میں آقایان قاضی شرع، سرکاری وکیل یا  نائب سرکاری وکیل اور وزارت خفیہ امور کے نمائندے کی اکثریتی رائے لازم الاتباع ہوگی۔ محاربین پر رحم سادہ اندیشی ہے، دشمنان خدا کے مقابلے میں اسلام کی قاطعیت، نظام اسلامی کے تردید ناپذیر اصولوں میں سے ہے۔ مجھے اُمید ہے کہ آپ دشمنان اسلام کی نسبت اپنے انقلابی خشم و کینہ کے ذریعے خداوند متعال کی خوشنودی حاصل کریں گے، جن آقایان کے ذمے موضوع کی تشخیص کا کام سپرد ہے وہ وسوسہ اور شک و تردید سے کام نہ لیں اور اشداء علی الکفار ہونے کی کوشش کریں ۔ انقلابی اسلام  کے عدالتی مسائل میں شک شہداء کے پاک و مطہر خون کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ والسلام
روح اللہ الموسوی الخمینی
اس خط میں  تاریخ درج نہیں ہےلیکن اس کی پشت پر آقائے حاج احمد آقا نے لکھا ہے:
پدر بزرگوار حضرت امام مدظلہ العالی
عرضِ سلام کے بعد، آیت اللہ اردبیلی منافقین کے بارے میں حضرتعالی کے حالیہ حکم کے متعلق کچھ ابہامات رکھتے تھے جسے انہوں نے ٹیلی فون پر درج ذیل تین سوالوں کی شکل میں لکھوایا ہے:
1۔ کیا سزائے موت کا یہ حکم زندانوں میں پہلے سے موجود اُن لوگوں کے لئے ہے جن پر مقدمہ بھی چلا ہے اور عدالت انہیں موت کی سزا سنا چکی ہے مگر انہوں نے اپنے موقف کو نہیں چھوڑا ہے، اور ابھی تک سزائے موت کے حکم پر عمل بھی نہیں ہوا ہے، یا وہ لوگ بھی اس حکم میں شامل ہیں جن پر ابھی تک مقدمہ بھی نہیں چلا ہے؟
2۔ کیا یہ حکم اُن منافقین کے لئے ہے جن پر مقدمہ چلنے کے بعد عدالتی حکم کے مطابق  محدود مدت کے لئے زندانوں میں قید ہیں اور اپنے قید کا کچھ حصہ کاٹ بھی چکے ہیں مگر اپنی منافقانہ موقف پر قائم ہیں؟
3۔ وہ منافقین جن پر اُن چھوٹے شہروں میں مقدمہ چلا ہے جو عدالتی لحاظ سے خودمختار ہیں اور صوبے کے دارالخلافہ کے تابع نہیں۔ کیا اُن منافقین کے مقدمے کی فائلوں کو مزید تفتیش کے لئے صوبے کے دارالحکومت بھیجنا لازمی  ہے یا وہ خود ہی اپنے طور پر اس حکم پر عمل کر سکتے ہیں؟
آپ کا بیٹا ، احمد
اس خط کے نیچے لکھا گیا ہے:
بسمہ تعالیٰ
مذکورہ بالا تمام موارد میں جو بھی جس مرحلے میں بھی ہو، اگر اپنے نفاق پر قائم ہے تو اس کی سزا موت ہے۔ بلا توقف دشمنانِ اسلام کو نابود کریں۔ جہاں تک ان فائلوں کا تعلق ہے تو جس طریقے سے بھی حکم ہذا کا اجراء جلد از جلد عمل میں آئے، وہی میرا حکم ہے۔
روح اللہ الموسوی الخمینی
میں نے سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ آیت اللہ موسوی اردبیلی کوایک مراسلہ بھیجا :
"کیا آپ کے قاضیوں نے اِن لوگوں کو پانچ یا دس سال قید کی سزا نہیں دی ہے اور کیا آپ  خود ان لوگوں کے ذمہ دار نہیں تھے؟ ! ایسے میں فون کرکے احمد آقا سے پوچھنے کی کیا ضرورت تھی  کہ یہ لوگ مثلاً کاشان میں موت کے گھاٹ اتار دیئے جائیں یا اصفہان میں؟! آپ خود چلے جاتے اور امام سے بات کرتے کہ ایک شخص جو ایک عرصے سے جیل میں قید ہے اور مثلاً پانچ سال قید کی سزا کاٹ رہا ہےاور اس کے فرشتوں کو بھی منافقین کی کارروائیوں کا علم نہیں، ہم ایسے شخص کو کس طرح پھانسی دے  سکتے ہیں؟ مگر یہ کہ کسی نئے جرم کا مرتکب ہوا ہو جس کی بنا پر اس پر دوبارہ مقدمہ چلائیں۔"
بہرحال، ایک عرصے تک قیدیوں سے ملاقات کا سلسلہ روک دیا گیا اور اربابِ اختیار کے قول کے مطابق پورے ملک میں تقریباً دو ہزار آٹھ سو یا تین ہزار آٹھ سو –   مجھے تھوڑا شک ہے-  مردوں اور عورتوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، یہاں تک کہ نماز روزے کی باقاعدگی سے پابندی کرنے والے لوگوں کو  بھی۔ تفتیش کا طریقہ کار یہ تھا کہ قیدی کو لایا جاتا اور اس سے کہا جاتا کہ کہو میں نے غلطی کی ہے، وہ اس بات کو اپنی توہین سمجھ کر نہیں کہتا تھا، تو یہ آقایان کہتے کہ ہاں تم یقیناً اپنے موقف پر قائم ہو، اور یوں اسے   بلا جھجک سُولی پر لٹکا دیا جاتا۔
یہیں قم میں کورٹ کا ایک ذمہ دار شخص میرے پاس آیا  اور قم کے خفیہ ایجنسی کے انچارج کے خلاف شکایت کرتے ہوئے کہنے لگا کہ یہ آدمی کہتا ہے کہ دھڑا دھڑ سب کو مار ڈالو تاکہ ان کے شر سے ہماری جان چھوٹ جائے۔ جب میں اس سے کہتا ہوں کہ ہمیں کم از کم اِن کے مقدمے کی فائلوں پر ایک نظر ڈالنی چاہئے تو کہتا ہے کہ اِن کے لئے امام حکم صادر کر چکے ہیں، ہمارا کام صرف اِن کی موجودہ پوزیشن کی تشخیص ہے۔ قیدیوں میں سے بعض افراد سے کہتے کہ کیاتم اپنے موقف پر قائم ہو؟ وہ بے چارہ بھی انجان کہ معاملہ کیا ہے، جواب میں کہتا کہ ہاں، اور یہ لوگ اسے فوراً لے جاکرپھانسی کے پھندے پر لٹکا دیتے۔
یہ سب کچھ دیکھ سن کر مجھے احساس ہوا کہ جو کچھ ہور ہا ہے صحیح نہیں ہورہا ، میں نے ارادہ کرلیا کہ ایک مراسلہ امام کو لکھوں گا۔ اتفاق سے آقائے سید ہادی ہاشمی اور آقائے قاضی خرم آبادی بھی اُس وقت یہیں پر تھے، اُن سے مشورہ کیا، انہوں نے کہا کہ آپ یہ کام نہ کریں کیونکہ امام مرصاد والے واقعےکے بعد منافقین پرغضبناک ہیں اور اگر آپ نے کچھ لکھ بھیجا تو وہ ناراض ہوجائیں گے۔ اس کے بعد یہ لوگ اٹھ کر چلے گئے، لیکن میں چین سے بیٹھ نہیں پا رہا تھا۔ اسی حالت میں، میں نے ظہر و عصر کی نماز پڑھ لی، میں سوچ رہا تھا کہ بہرحال لوگ مجھے قائم مقام رہبری کہتے ہیں، میں اس انقلاب کے لئے قربانیاں دی ہیں، اگر اس جمہوری اسلامی میں ایک بے گناہ مارا جائے تو میں بھی اس کا ذمہ دار ہونگا۔ الغرض میں نے قرآن مجید سے استخارہ کیا، یہ آیہ شریفہ نکلا: "وَهُدُوا إِلَى الطَّيِّبِ مِنَ الْقَوْلِ وَهُدُوا إِلَىٰ صِرَاطِ الْحَمِيدِ : نیک گفتار کی طرف انہیں ہدایت دی گئی اور ہدایت دی گئی پسندیدہ راہ کی طرف"، اس کے بعدمیں نے بیٹھ کر یہ خط لکھ ڈالا۔
حوالہ نمبر 153
مورخہ 9/5/67
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محضر مبارک آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی مدظلہ العالی
عرض آداب و تسلیمات کے بعد، زندانوں میں موجود منافقین کی سزائے موت کے متعلق جنابعالی کے حالیہ حکم کے حوالے سے عرض خدمت ہے کہ حالیہ مسلحانہ کارروائیوں میں پکڑے جانے والوں کی سزائے موت کو قوم و ملت قبول کرنے کے لئے تیار ہے اور ظاہراً اس کا کوئی بُر ا اثر بھی نہیں پڑے گا لیکن پہلے سے  جیلوں میں موجود قیدیوں کو سزائے موت دینے کا عمل:
اولاً، موجودہ حالات میں کینہ توزی اور انتقام جوئی سمجھا جائے گا۔
ثانیاً ، بہت سارے دیندار اور انقلابی گھرانوں کوغم زدہ اور سوگوار کرے گا اور وہ ہم سے سخت متنفر ہوجائیں گے۔
ثالثاً، ان میں سے بہت سے قیدی اپنے موقف پر قائم نہیں ہیں لیکن بعض افسران اندھا دھند  انہیں سابقہ موقف پر قرار دے رہے  ہیں۔
رابعاً، موجودہ حالات میں جبکہ صدام اور منافقین کے حملوں اور جارحانہ اقدامات کی وجہ سے دنیا کے سامنے ہم ایک مظلومانہ چہرہ رکھتے ہیں اور بہت ساری اہم شخصیتیں اور ذرائع ابلاغ ہمارا دفاع کر رہے ہیں، نظام اور حضرتعالی کےحق میں نہیں کہ  ہمارے ان اقدامات کی وجہ سے ایک دم ہوا کا رخ بدل جائے اور ہمارے خلاف پروپیگنڈا شروع ہوجائے۔
خامساً، وہ افراد جو شرعی معیارات کے مطابق عدالتوں کی طرف سے سزائے موت سے کمتر سزا کے مستحق ٹھہرائے گئے ہیں، انہیں بغیر کسی وجہ اور بغیر کسی تازہ سرگرمی کے پھانسی دینا تمام عدالتی اصولوں اور قاضیوں کے فیصلوں کی بے اعتنائی ہوگی اور اس کا کچھ اچھا ردعمل سامنے نہیں آئے گا۔
سادساً، ہمارے کورٹ، کچہری اور خفیہ ایجنسی کے ذمہ دار حکام مقدس اردبیلی جیسےتو ہیں نہیں، اس لئے اُن کی غلطیوں اور ماحول سے متاثر ہونے کی بہت سی مثالیں ملتی ہیں، اور جناب عالی کے حالیہ حکم کی وجہ سے کتنے بے گناہ یا کم گناہ لوگ بھی مارے جا رہے ہیں، اور اس طرح کے نازک امور میں تو احتمال بھی  یقینی ہے۔
سابعاً، ہمیں اب تک کُشت و خون اور تشدد سے کچھ بھی تو فائدہ نہیں ہوا ہے سوائے اس کے کہ اپنے خلاف ہونے والے پروپیگنڈوں کو ہوا دی ہے اور منافقین اور ضدِ انقلابیوں کی محبوبیت میں اضافہ کیا ہے۔ بہتر ہے کہ کچھ عرصہ لوگوں کے ساتھ رحمت و شفقت کے ساتھ پیش آئیں کہ یقیناً بہت سوں کے لئے یہ عمل  باعث کشش ہوگی۔
ثامناً، اگر بالفرض اپنے فیصلے پر اصرار ہے تو کم از کم یہ حکم صادر کیجئے کہ قاضی، سرکاری وکیل اور خفیہ ایجنسی کے افسر، تینوں کا اتفاق نظر معیار ہو نہ کہ اکثریت کی رائے، اور عورتوں کو اس شرط سے چھوٹ دی جائے، خصوصاً بال بچوں والی عورتیں، اور پھر کئی ہزار افراد کو پھانسی کے پھندے پر چڑھانا، وہ بھی چند دنوں کے اندر اندر، اس کا ردعمل اچھا ہوگا اور نہ ہی خطا سے خالی ۔ بعض متقی پرہیزگار قسم کے قاضی حضرات اس حکم سے بہت پریشان نظر آتے ہیں۔ بجا  ہے کہ یہ حدیث شریف مورد ِ توجہ قرار پائے: قال رسول اللہ ﷺ ادْرَءُوا الحُدودَ عن المسلمين ما استطعتم، فإن كان له مخرج، فخلوا سبيله. فإن الإمام أن يخطئ في العفو، خير من أن يخطئ في العقوبة:"۔ (جہاں تک ہوسکے مسلمانوں کو حدود کی سزاؤں سے بچاؤ ، اگر بچاؤ کا کوئی راستہ نکلتا ہے تو نکالو، کیونکہ امام کا عفو و درگزشت میں غلطی کرنا سزا میں غلطی کرنے سے بہترہے۔)
والسلام علیکم و ادام اللہ ظلکم
16 ذی الحجہ 1408 – 9/5/67
حسین علی منتظری
اور بال بچوں والی عورتوں سے میری مراد حاملہ عورتیں نہیں تھیں، کہ احمد آقا نے اپنے رنجنامہ میں اس بات کو لے کر میرے خلاف خوب محاذ آرائی کی تھی، بلکہ مراد وہ عورتیں تھی جن کے کئی بچے تھے اور انہیں مارڈالنےسے وہ بچے بے آسرا ہوجاتے۔ خلاصہ یہ کہ میں نے یہ خط لکھ کر اس کی دوفوٹو کاپیاں کیں۔ اصلی نسخے کو بھیجا امام کے لئے اور ایک کاپی بھی سپریم جوڈیشل کونسل کے لئے ارسال کر دی،چونکہ سپریم جوڈیشل کونسل اس معاملے کا جوابدہ تھا اور اُن کی ذمہ داری تھی کہ جاکر امام سے گفتگو کرتے۔ خط کو دونوں کے لئے ارسال کرنے کے بعد میں نے آقائے سید ہادی کو فون کیا اور کہا: "میں نے ایک خط لکھ کر امام کی خدمت میں بھیجا ہے، آپ امام کے دفتر میں آقائے محمد علی انصاری کو فون کرکے بتادیں کہ وہ خط لے کر امام کی خدمت میں پہنچا دیں"۔
 انہوں نے کہا: "مگر یہ طے نہیں ہوا تھا کہ آپ کچھ نہیں لکھیں گے"۔
 میں نے کہا: "بہرحال میں نے لکھدیا اور بھیج بھی دیا "
اچھا اب جو یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس خط کے لکھنے میں اِن کے گھروالوں، خصوصاً آقائے سید ہادی کا ہاتھ ہے، ایک بے بنیاد بات ہے اس لئے کہ میرے گھر والے میرے خط لکھنے کے سرے سے مخالف تھے۔
کچھ دنوں بعد خوزستان کے ایک قاضی بنام حجت الاسلام آقائے محمد حسین احمدی ، فرزند آیت اللہ آقائے شیخ علی اصغر احمدی شاہرودی میرے پاس آئے تو کافی پریشان دکھائی دے رہے تھے، کہنے لگا : "وہاں دھڑا دھڑ پھانسیاں دی جا رہی ہیں، گھما پھرا کر اکثریتی رائے حاصل کی جاتی ہے، دیکھ بھال کر تشخیص نہیں دیتے، یہ لوگ منافقین کی کارروائیوں کی وجہ سے بپھرے ہوئے ہیں جس کا غصہ نکال رہے ہیں اِن قیدیوں پر "۔
میں نے عین اُن کو گفتگو کو بھی ایک مکتوب میں امام کے لئے کچھ یوںمنعکس کر دیا:
حوالہ نمبر:  154
مورخہ : 13/5/67
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
محضر مبارک آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی مدظلہ العالی
بعد از سلام و عرض ادب، بحوالہ مکتوب مورخہ 9/5/67 اپنی شرعی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے آپ کی خدمت میں عرض ہے کہ تین دن پہلے ملک کے ایک صوبے کے قاضی، جوکہ ایک قابلِ اعتماد انسان ہیں، آپ کے حالیہ حکم کے طریقہ اجراء پر اپنی عدم رضامندی کا اظہار کرنے کے لئے قم آیا تھا اور کہہ رہا تھا: "خفیہ ایجنسی کے آفیسر یا سرکاری وکیل نے –  مجھے تھوڑا شک ہے-  قیدیوں میں سے ایک سے یہ جاننے کے لئے کہ وہ اپنے موقف پر قائم ہے یا نہیں پوچھا: "کیا تم منافقین کی تنظیم کی مذمت کرنے کو تیار ہو؟"
اس نے کہا: "ہاں"
 آفیسر نے پوچھا: "کیا تم ٹی وی پر انٹرویو دینے کے لئے تیار ہو"
اس نے کہا: "ہاں"
آفیسر نے پوچھا: "ایران عراق جنگ میں شرکت کرنے کے لئے محاذ جنگ پر جانے کو تیار ہو؟"
اس نے کہا: "ہاں"
آفیسر نے پھر پوچھا: "کیا مائن فیلڈ میں جانے کے لئے تیار ہو؟"
اس نے کہا: "کمال ہے، کیا سارے لوگ مائن فیلڈ میں جانے پر راضی ہوتے ہیں؟، پھر مجھ تازہ مسلمان سے اس حد تک توقع رکھنا کہاں کا انصاف ہے۔"
آفیسر نے کہا: "لگتا ہے کہ تم ابھی تک اپنے موقف پر قائم ہو۔"
یہ کہہ کر انہوں نے اُس کے ساتھ وہی کردیا جو موقف پر قائم دوسرے لوگوں کے ساتھ کیا گیا تھا۔"
 یہی قاضی بتا رہا تھا کہ میں نے بے حد اصرار کیا کہ معیار کم از کم اتفاق رائے رکھا جائے نہ اکثریت، مگر انہوں نے میری بات پر دھیان نہیں دیا،  اس سلسلے میں خفیہ کا آفیسر مرکزی کردار ادا کرتا ہے اور باقی عملی طور پر اُس کے زیر اثر ہوتے ہیں۔ حضرتعالی ملاحظہ کیجئے کہ کس قسم کے لوگ کس قسم کے طرزِ نگاہ  کے ساتھ حضرتعالی کے ایسے اہم احکامات کے اجراء کے ذمہ دار ہیں جو ہزاروں لوگوں کے خون سے مربوط ہیں۔
13/5/67 – حسین علی منتظری
میرا یہ دوسرا خط اس بارے میں تھا، لیکن میں نے دیکھا کہ وہ لوگ اپنا کام کرتے جا رہے ہیں۔ اس طرح یکم محرم آیا، میں نے اوین جیل کے قاضی شرع آقائے نیّری اور سرکاری وکیل آقائے اشراقی، نائب سرکاری وکیل آقائے رئیسی اور خفیہ کے نمائندےآقائے پورمحمدی کو طلب کیا اور کہا کہ محرم کا مہینہ آچکا ہے کم سے کم اس مہینے میں تو پھانسیوں سے ہاتھ روک لیں۔
آقائے نیری نے کہا: "ہم نے اب تک تہران میں سات سو پچاس لوگوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ہے، دو سوافراد کو اپنے موقف پر قائم ہونے کی وجہ سے دوسروں سے الگ کیا ہے، پہلے ان کا کام بھی تمام کریں اس کے بعد جو بھی آپ کا حکم اور ۔۔۔!"
میں سخت پریشان ہوا ، میں نے اسی میٹنگ میں ہی  اُن اہم نکات کے بارے میں اُن سے بات کی جو میں نے پہلے ہی لکھ رکھا تھا، اس کے بعد ایک کاپی میں نے ان کو دی جسے میں آپ کے لئے پڑھ دیتا ہوں۔ اور یہ وہی چیزیں ہیں کہ حاج احمد آقا نے اپنے رنجنامہ میں اُس کے بعض حصوں کو لے کے خوب ہنگامہ کھڑا دیا تھا، حالانکہ یہ مراسلہ نہیں بلکہ ایک یادداشت ہے۔
اوین جیل میں حکم امام کے اجراء کے سلسلے میں آقایان نیّری قاضی شرع، اشراقی وکیل مدعی العموم، رئیسی معاون وکیل مدعی العموم اور پور محمدی نمائندہ خفیہ ایجنسی کے نام ایک یادداشت
حوالہ نمبر : 155
مورخہ : 24/5/67
بسمہ تعالیٰ
1۔ میں نے آپ تمام لوگوں سے زیادہ منافقین سے نقصان اٹھایا ہے، خواہ جیل میں یا جیل سے باہر، میرے بیٹے کو انہوں نے شہید کردیا، اگر انتقام جوئی ہمارا مقصد ہو تا تو آپ لوگوں سے زیادہ مجھے اس سلسلے میں سرگرم ہونا چاہئے تھا، لیکن میں انقلاب، اسلام اور ملک کی مصلحت، ولایت فقیہ اور حکومتِ اسلامی کی حیثیت کو اہمیت دیتا ہوں، میں آئندہ آنے والوں اور تاریخ کی قضاوت کو مدنظر رکھتا ہوں۔
2۔بغیر مقدمہ چلائے اس قسم کا قتل عام، وہ بھی قیدیوں اور اسیروں کا، یقیناً اس کا دوررس فائدہ اُن کو ہوگا اور دنیا ہمیں ملامت کرے گی اور یہ عمل انہیں ہمارے ساتھ مسلحانہ جنگ پر اور زیادہ اُکسائے گا، فکر اور آئیڈیالوجی کا مقابلہ کُشت و خون کے ذریعے کرنا غلط ہے۔
3۔ فتح مکہ اور جنگ ہوازان میں اپنے دشمنوں کے ساتھ پیغمبر اکرمؐ کے برتاؤ کو مت بھولئے کہ کیسا تھا، پیغمبر خدا نے عفو و درگزر سے کام لیا اور درگاہ خداوندی سے رحمت للعالمین کا لقب پایا۔ جنگ جمل میں امیر المومنین علیؑ نے اپنے شکست خوردہ دشمنوں کے ساتھ جو مہربانی کا برتاؤ کیا اسے بھی ملاحظہ کیجئے۔
4۔ موقف پر قائم بہت سے قیدیوں کا اپنے موقف پر اکڑ جانے کی وجہ تفتیشی افسر وں اور جیلروں کا ناروا سلوک ہے وگرنہ شاید وہ  لچک دکھاتے اور اپنے موقف سے پلٹ جاتے۔
5۔ صرف اس شک کی بنا پر کہ اگر قیدیوں کو آزاد کر دیا جائے تو منافقین سے جاملیں گے اُن پر جنگجو اور باغی کا عنوان صادق نہیں آتا۔ امیر المومنین علیؑ نے ابن ملجم پر ارتکابِ جرم سے  پہلے قصاص کا حکم جاری نہیں کیا، باوجود اس کے کہ آپ ؑ خود کہتے تھے کہ وہ میرا قاتل ہے۔
6۔ صرف اعتقاد، فرد کو جنگجو اور باغی کے دائرے میں داخل نہیں کرتا، اور ان کے لیڈروں کا بالفرض مرتد ہونا  اُن کے معتقدین اور پیروکاروں کے حکم ارتداد کاموجب نہیں بنتا۔
7۔ عدالتی فیصلہ اور اس کا اجراء ایک سالم اور احساساست سے خالی ماحول میں ہونا چاہئے، "لایقضی القاضی وھو غضبان: غصے کی حالت میں قاضی فیصلہ سنانے سے اجتناب کرے" اس وقت نعروں اور جلسے جلوسوں کی وجہ سے ہمارا اجتماعی ماحول غیر سالم ہے، ملک کے مغربی علاقوں میں منافقین کی مجرمانہ کارروائیوں کی وجہ سے ہم غضب آلود ہیں اور اس کا غصہ جیلوں میں پہلے سے موجود قیدیوں اور اسیروں پر نکالنے اور ان کی جان لینے کے درپے ہیں، اس وقت کسی نئی مجرمانہ کارروائی کے بغیر اُن کا قتل عام کرنا تمام قاضیوں اور تمام سابقہ عدالتی فیصلوں کو زیر سوال قرار دینا ہے۔ ایک شخص جسے عدالت سے سزائے موت سے کمتر سزا ملی ہوئی ہے  کس معیار کی بنا پراُسے  پھانسی پر لٹکا دیا جا تا ہے؟اس وقت آپ لوگوں نے قیدیوں سے ملاقات پر پابندی اور اُن کے ٹیلیفون لائنوں کو بند رکھا ہوا ہے، کل اِن  کے گھر والوں  کو کیا جواب دیں گے؟
8۔ میں سب لوگوں سے زیادہ حضرت امام کی حیثیت اور آبروئے ولایت فقیہ کے لئے فکرمند ہوں اور مجھے معلوم نہیں کہ اس موضوع کو کس انداز میں اُن تک پہنچایا گیا ہے، فقہ میں ہم جان  اور اموال کے بارے میں احتیاط کرنے پر اتنا زیادہ بحث کرتے ہیں تو وہ سب کچھ غلط تھا؟
9۔ میں نے کئی ایک عاقل اور دیانت دار پرہیزگار قاضیوں کو دیکھا کہ پریشان تھے اور اجرائے حکم کے طریقے سے انہیں شکایت تھی اور کہتے تھے کہ  اس سلسلے میں زیادتی ہورہی ہے اور نمونے کے طور پر کئی واقعات ذکر کر رہے تھے جن میں بلاوجہ ملزم کو پھانسی دی گئی تھی۔
10۔ آخری نکتہ یہ کہ مجاہدین خلق  صرف کچھ افراد کا نام نہیں بلکہ ایک فکری تحریک اور ایک قسم کی منطق ہے، لہذا غلط منطق کا صحیح منطق کے ساتھ جواب دیا جانا چاہئے، مار ڈالنے  سے مسئلہ حل  نہ ہوگا بلکہ اس فکر کی مزید ترویج ہوگی۔ انشاء اللہ آپ کامیاب رہیں۔
حسین علی منتظری
حاج آحمد آقا نے اپنے رنجنامہ میں بند نمبر 10 پر خوب شور مچایا  تھا کہ منافقین کے کام کو ایک قسم کی منطق کیوں کہا، حالانکہ جن لوگوں نے منافقین کے نعروں سے دھوکہ کھا کر بالفرض کچھ پمفلٹ وغیرہ تقسیم کئے  ہیں اُن میں اور مرصاد کے حملوں میں حصہ لینے والوں میں فرق ہے، اور پھر جو کچھ میں نے لکھا وہ صرف ایک یادداشت ہے نہ کہ ایک باقاعدہ مراسلہ۔
الغرض میں نے یہ نکات پڑھ کر انہیں سنایا اور ساتھ ہی اس کی ایک کاپی ان کو دی اور زبانی انہیں بتایا : "یہ عشرہ محرم کے ایام ہیں، کچھ دنوں کے لئے ہاتھ روک لیں"۔ اس کے بعد میں نے دوبارہ ان سے مخاطب ہوکر کہا: "اگر امام بھی اصرار کرتے ہیں تو آپ لوگ زندان میں موجود شرارت ،  پروپیگنڈا اور مختلف سرگرمیوں میں ملوث افراد کی قانونی طریقے سے تفتیش کریں اور اُن پر مقدمہ چلائیں، مقدمہ چلانے کے بعد اگر سزائے موت کے مجرم ثابت ہوئے تو انہیں سزائے موت دیں۔ اس صورت میں کم سے کم کوئی یہ تو نہیں کہے گا کہ عدالت کی طرف سے پانچ سال قید کی سزا ملنے والے کو جمہوری اسلامی نے پھانسی پر لٹکا دیا ۔"
 یہ طبیعی بات تھی کہ یہ مسائل آقائے رے شہری اور احمد آقا تک پہنچتے تھے اور وہ میرے اس برتاؤ اور جواب طلبیوں سے نالاں تھے۔ بہرحال، مجھے ملنے والی خبروں کے مطابق اسی کھینچا تانی میں  انہوں نے تقریباً دو ہزار آٹھ سو یا تین ہزار آٹھ سو افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔
مجھے یاد ہے صوبہ فارس کے سرکاری وکیل آقائے اسلامی ایک فائل میرے پاس لے کر آئے تھے جو ایک لڑکی کی تھی جسے وہ لوگ پھانسی دینا چاہتے تھے۔ کہہ رہا تھا کہ میں اُس کو پھانسی دینے کے خلاف تھا لیکن اکثریتی رائے کی بنیاد پر انہوں نے اسے پھانسی دیئے بغیر نہیں چھوڑا۔ فائل میں لڑکی کا وصیت نامہ تھا جسے اُس نے پھانسی دیئے جانے  سے پہلے اپنے ماں باپ کو مخاطب کرکے لکھا تھا: "آپ لوگوں کو پریشان ہونے کی  ضرورت نہیں، اس قسم کے واقعات پیش آتے ہیں مگر آپ انقلاب کو بدبینی کی نگاہ سے نہ دیکھیں، قرآن اور نہج البلاغہ کی تلاوت کیا کریں اور ۔۔۔" کہ اس لڑکی کو پھانسی دیئے جانے کا خود آقائے اسلامی کو بے حد افسوس تھا۔
حجت الاسلام آقائے حسین علی انصاری جوکہ جیلوں میں میرا نمائندہ تھا، کہہ رہا تھا:
"چھ یا سات بھائی تھے جو باقاعدگی سے نماز پڑھا کرتے تھے اور روزے بھی رکھا کرتے تھے، بہت زیادہ معتقد قسم کے لوگ تھے، وہ کہتے تھے کہ ہم منافقین کے خلاف ہوچکے ہیں۔ مگر جب ان بھائیوں سے  کہا گیا کہ تم  لوگوں کو ٹیلی ویژن پر انٹریو دینا پڑے گا تو انہوں نے کہا کہ ہم ٹی وی پر انٹرویو دینے کے لئے تیار نہیں، کچھ لکھ کر دینے کو تیار ہیں لیکن ٹی وی پر انٹرویو نہیں دے سکتے، یہ ہمارے لئے شکست کے مترادف ہے، بس اسی کو بہانہ بناکر آقایان  نے ان سے کہا کہ تم لوگ ضرور اپنے موقف پر قائم ہو اور اس طرح ان میں سے پانچ یا چھ کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا، صرف ایک فرد کو چھوڑا جوکہ بیماری کی وجہ سے معذور ہوچکا تھا۔" یہ تھا ان کا طریقہ کار۔
بہرطور ،ان واقعات کو گزرے ہوئے کچھ عرصہ بیت گیا تھا کہ ان آقایان نے امام سے ایک اور حکم نامہ جیلوں میں قید غیر مذہبی لوگوں کے لئے لکھوایا۔ اس زمانے میں پانچ سو کے قریب غیر مذہبی اور کمیونسٹ قیدی جیلوں میں تھے۔ یہ آقایان اس خط کے ذریعے ان لوگوں کی کہانی کو بھی خاتمہ دینا چاہتے تھے اور اپنے خیال میں اُن کے شر سے خلاص ہونا چاہتے تھے۔ اتفاق سے یہ خط آقائے خامنہ ای کے پاس بھی پہنچا تھا، اُس وقت وہ صدر مملکت تھے۔ متاثرہ گھرانوں کے لوگوں نے جب اس سلسلے میں ان سے رجوع کیا تو انہوں نے  ذمہ دار حکام سے بات کی تھی اور کہا تھا کہ یہ آپ لوگ کیا کر رہے ہیں، ہاتھ روک لیں۔ بعد میں جب آقائے خامنہ ای میرے پاس قم آئے تو غصے میں دکھائی دیتے تھے اور کہنے لگے:
"اِ ن آقایان نے امام سے  کچھ ایسا ویسا حکم نامہ لکھوایا ہے اور اب اِن قیدیوں کو اندھا دھند موت کے گھاٹ اتار نا چاہتے ہیں"
میں نے کہا: "آج آپ کمیونسٹوں کے بارے میں کس لئے فکر مند ہورہے؟ منافقین کی پھانسیوں کے حوالے سے اِن کے حکم  نامہ کے بارے میں آپ خاموش کیوں رہے؟"
انہوں نے کہا: "کیا امام نے مذہبی لوگوں کے بارے میں بھی کوئی حکم نامہ صادر کیا تھا؟"
میں نے کہا: "آقا جان، آپ کس دنیا میں رہتے ہیں، لکھے جانے کے دو دن بعدوہ حکم نامہ مجھ تک پہنچا  اور اتنا کچھ ہوکر گزر چکا ہے، آپ تو اس ملک کے صدر ہیں، آپ ان واقعات سے کس طرح بے خبر ہیں؟" اب مجھے نہیں معلوم کہ آقائے خامنہ ای واقعاً کچھ نہیں جانتے تھے یا  صرف میرے سامنے یہ باتیں کر رہے تھے۔
س: اچھا تو اِن مکتوبات کے لکھنے اور آپ کے ان رویوں کا مقصد انسانیت کی بھلائی، نظام اور انقلاب کے لئے ایک قسم کی مصلحت بینی اور ایک شرعی حکم کا بیان تھا؟
ج: جی ہاں، بلاشبہ ایسا ہی تھا،  میرا مقصد مجاہدین خلق کا دفاع کرنا نہیں تھا، میرا مقصد اُن اقدار پر ثابت قدم رہنا تھا جن کے ہم خود قائل تھےاور ہماری محبتیں اور دشمنیاں اُن کی پامالی کا باعث نہیں بننا چاہئے تھا، میرا مقصد امام کی شخصیت اور ولایت فقیہ کی آبرو کی حفاظت کرنا تھا کہ جن کے نام پر کچھ غلط کام ہو رہے تھے۔ مجاہدین کی خالی حمایت پھانسی کا جواز دہندہ نہیں ہوسکتا اور جمہوری اسلامی میں تمام طبقات کے حقوق کا خیال رکھا جانا ضروری ہے۔
ایک اور نکتہ جو میں اسی جگہ بیان کرنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ کون سبب بنا کہ میرا یہ خط (مکتوب مورخہ 9/5/67) اچانک ریڈیو بی بی سی کے ہاتھ لگ جائے اور اِن واقعات کے گزر جانے کے آٹھ ماہ بعد عید نوروز کے ایام میں، یعنی عید کی پانچویں رات، 6/1/68  کے مکتوب سے ایک دن پہلے بی بی سی سے نشر ہوجائے، وہ بھی اس طرح کہ گزرے ہوئے واقعات کے متعلق کسی قسم  کی وضاحت دیئے بغیر، تاکہ حالات کی نزاکت کو اس عنوان سے مزید ہوا دی جائے کہ فلاں منافقین کا دفاع کنندہ ہے ،اور یوں امام سے منسوب مکتوب مورخہ 6/1/68  لکھے جانے کا سبب بنے، باوجود اس کے کہ میں نے وہ خط صرف امام اور سپریم جوڈیشل کونسل کے لئے بھیجا تھا اور اس دوران کسی کو بھی نہیں دکھایا تھا۔ البتہ بعض لوگوں نے اسی دوران اس خط  کوتہران یونیورسٹی میں آقائے سید حمید روحانی کے پاس دیکھا تھا! میرا اندازہ ہے کہ کچھ خفیہ ہاتھ اس سلسلے میں مصروف کار تھے تاکہ حالات کو اُن کے دلخواہ نتائج کے حصول کے لئے سازگار کیا جائے۔
آیت اللہ منتظری کے خط کے جواب میں آقائے سید احمد خمینی کا خط
حوالہ نمبر 156
حضرت آیت اللہ العظمیٰ منتطری دامت برکاتہ
عرض سلام کے بعد، حضرت امام نے فرمایا:
جنابعالی کا دوسرا مکتوب تعجب کا باعث بنا، آپ مذکورہ شخص کو بتادیجئے کہ اپنے مسائل کو یہاں آکر بیان کرے اور آپ مطمئن رہیں اور وہ بھی کہ مسئلہ صیغہ راز میں رکھا جائے گا۔ آپ تو جانتے ہیں کہ میں کسی بے گناہ پر سوئی کے نوک کے برابر ظلم ہوتا ہوا نہیں دیکھ سکتا، لیکن ہاں ضد انقلاب خصوصاً منافقین کے حوالے سے آپ کا  طرز نگاہ میرے لئے قابل قبول نہیں۔ زیر بحث حکم کی شرعی ذمہ داری میں قبول کرتا ہوں جنابعالی کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ خداوند ہم سب کو منافقین کے شر سے محفوظ رکھے۔
15/5/67، مخلص، احمد خمینی
آخرکار آقائے شیخ محمد حسین احمدی جماران چلے بھی گئے مگر امام سے ملاقات کرنے میں کامیاب نہ ہوسکے اس لئےاپنے مطالب کو امام کے لئے ایک خط کی شکل میں لکھا اور احمد آقا کے حوالے کر دیا تاکہ وہ امام کی خدمت میں پہنچا دے، البتہ حسب قرائن عین ممکن ہے کہ یہ خط بھی بہت سارے دوسرے خطوط کی طرح امام تک پہنچا ہی نہ ہو۔ کچھ عرصہ بعد جب قائم مقامی سے برطرفی کا واقعہ ہوگزرا اور احمد آقا کا رنجنامہ شائع ہوا تو اُس میں درج باقی موارد کی طرح ایک سراپا جھوٹ پر مبنی مطلب آقائے شیخ  احمدی کی ملاقات کے بارے میں بھی لکھا ہوا تھا کہ آقائے شیخ محمد حسین احمدی نے اُس وقت کے  نازک   حالات کے باوجود ایک تردید نامہ اُسی وقت احمد آقا کے نام لکھ بھیجا جس میں ان کی باتوں کو صریح انداز میں رد کر دیا تھا۔
س: اصولاً حضرتعالی مرحوم امام کو خط کیوں لکھتے تھے اور اس کے محرکات کیا تھے؟
ج: بہت سوں نے یہ سوال مجھ سے پوچھا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمارے ایران میں اسلام کے نام پر اور عدل و انصاف کی بالادستی اور ظلم و زیادتی کی روک تھام کے لئے ایک انقلاب برپا ہوا تھا، اور اگرچہ امام رہبر انقلاب تھے لیکن انقلاب سب کا تھا اور میں نے بھی اپنے حد تک اس میں کردار ادا کیا تھا اور اس میں ہونے والے ہر غلط کام کے متعلق خود کو کسی حد تک جوابدہ سمجھتا تھا، خصوصاً لوگ مجھے معظم لہ کے قریبی ساتھی اور حامی کے عنوان سے جانتے تھے اور مجھ سے یہ توقع رکھتے تھے کہ غلط کاموں یا لغزشوں کے سامنے خاموش نہ رہوں۔ علاوہ ازیں، امر بہ معروف و نہی از منکر اور خلاف شرع کاموں سے روکنا سب پر واجب ہے، مرحوم امام بھی علم غیب تو نہیں رکھتے تھے اور عین ممکن ہے کہ مختلف محکموں، اداروں، خصوصاً جیلوں اور تفتیشی مراکز میں خلاف ورزیاں اور زیادتیاں عمل میں آتی ہوں اور یہ سب اسلام اور نظام کے کھاتے میں ڈالا جاتا ہو۔ امام سے ٹیلی فون پر ملاقات کی سہولت بھی میسر نہیں تھی اور ان کی خدمت میں حاضر ہونا بھی طویل مسافت کی وجہ سے مشکل تھا،  لہذا اپنے نکتہ نظر کو امام تک پہنچانے کے لئے خط کا سہارا لینامیری مجبوری تھی،  گاہے اوقات کئی مہینوں میں ایک بار اِن کی خدمت میں حاضر ہوکر بھی چند باتوں کی یاددہانی کراتا تھا۔   لیکن بعض لوگ ان یادہانیوں کی مخالفت یا اس لئے کرتے تھے کہ وہ خود یا اُن کے دوست  و احباب زیر سوال  چلے جاتے تھے یا کہتے تھے کہ مرحوم امام ناراض ہوجائیں گے یا یہ لوگ سوچتے تھے کہ انہیں کسی بات کی یاددہانی کرانا ان پر اعتراض کرنے یا ان کو زیر سوال قرار دینے کے مترادف ہے۔
اُن دنوں جب حاج سید احمد خمینی، خود اُن کے بقول، رنجنامہ لکھنے میں مشغول تھے تو آقائے سید ہادی ہاشمی کی اُن سے کہیں ملاقات ہوتی ہے جس میں وہ آقائے سید ہادی سے اصرار کرتے ہیں کہ آقائے منتظری کو مجبور کریں کہ وہ امام کو لکھے: "وہ تمام مکتوبات جو میری طرف سے آپ کے نام لکھے گئے جعلی ہیں اور دوسرے لوگوں نے میرے نام سے آپ کو لکھے ہیں۔" جبکہ آپ جانتے ہیں مشکلات کو رفع کرنے اور کوتاہیوں سے بچنے کے لئے معاشرے کے رہبر کو یاددہانی کرانا اُن کو زیر سوال قرار دینا نہیں ہے ، اور یہ کوئی ایسی بات نہیں تھی کہ جس پر اُن کے حواری ناراض ہوجائیں، بلکہ واقعیت یہ ہے کہ انہیں خوش ہونا چاہئے تھا۔ پیغمبر اکرمؐ سیاسی و اجتماعی مسائل میں فرماتے "اشیرو ا علی" اور حکمِ خداوندی بھی ہے کہ "وشاورھم فی الامر"۔ تنقید اور یادآوری کا اصول پیغمبر اکرمؐ اور امیر المومنین علیؑ کے زمانے میں اور اسی طرح شیخین کے زمانے میں بھی ایک رائج امر تھا۔ بہرطور میں چونکہ معظم لہ سے دور تھا اس لئے آقایان جو چاہتے اُن کے کان میں ڈال دیتے تھے، انشاء اللہ کہ وہ قصد خیر رکھتے تھے۔ والی اللہ اشکو وھو حسبی ونعم الوکیل، اس بات سے خوش ہوں کہ میں نے اپنی شرعی ذمہ داری پوری کی، میں کبھی بھی جاہ و مقام  کا طالب نہیں تھا کہ اس  کے ہاتھ سے نکل جانے پردکھی ہوجاؤں۔
س: اسی حوالے سے بعض لوگوں کا خیال ہے کہ اُس زمانے میں جبکہ انقلاب اور ملک کی رہبری کی باگ ڈور مرحوم امام (قدس سرہ) کے ہاتھ میں تھی، کیا ضرورت تھی کہ آپ تقریروں یا تنقید آمیز اورکبھی تیز لب و لہجے میں مکتوبات لکھ کر بدخواہوں اور فتنہ انگیزوں کے لئے میدان فراہم کریں؟ کیا یہ بہترنہ ہوتا کہ حضرتعالی سکوت اختیار کرتے اور جب بھی انقلاب اور مملکت کی ذمہ داری آپ کے کاندھوں پر آتی آپ اپنے طرزِ نگاہ اور تجاویز کو بیان اور نافذ فرماتے، یوں انقلاب کے حامیوں اور عوام کو اس حادثے کی وجہ سے پیش آنے والے نقصانات سے بچایا جا سکتا تھا؟
ج: جیسا کہ پہلے عرض کر چکا کہ ملک کے حالات کا صرف ایک آدمی ذمہ دار نہیں ہوتا اور تمام کاموں کو بھی ایک ہی آدمی انجام نہیں دیتا اور نہ ہی وہ انجا م دے سکتا ہے۔ تمام وزارت خانے، اسمبلی کے ممبران، گورنران، فوجی سربراہان اور دوسرے ایک ملک کی تدبیر میں موثر کردار ادا کرنے والی قوتیں ہیں۔ مرحوم امام ان آخری دنوں میں سخت بیمار تھے اور لوگوں کے ساتھ اُن کا رابطہ بہت کم ہوکر رہ گیا تھا۔ ان آخری دنوں میں جس قدر لوگ اپنے مسائل و مشکلات لے کر میرے پاس آتے تھے اُس کا دسواں حصہ بھی شاید امام کے پاس پیش نہیں ہوتے تھے، اس طرح وہ یہ جانتے ہی نہیں تھے کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے، کسی نہ کسی کو تو یہ کام کرنا ہی تھا اور انہیں ان مسائل سے آگاہ کرنا تھا۔ احمد آقا اور دیگر لوگ بھی اُن کی بیماری کا خیال کرتے ہوئے نہیں چاہتے تھے کہ ان پر کسی قسم کا دباؤ آجائے، اس لئے بہت سارے مسائل کو اُن تک نہیں پہنچاتے تھے۔ میں بھی اس وجہ سے کہ مختلف لوگ مجھ سے رجوع کرتے تھے اور شاید میں بہت ساری خامی خرابیوں اور اونچ نیچ کا حل ڈھونڈ سکتا تھااس لئے خود کو کچھ نہ کچھ کرنے کا ذمہ دار سمجھتا تھا۔ کبھی کبھار تو میں یہ سوچتا ہوں کہ میری ذمہ داری شاید اس سے کہیں زیاددہ تھی اور میں نے انہیں پورا نہ کیا۔ حکومت اسلامی میں مسائل سے آگاہ لوگوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے نکتہ نگاہ کو حاکم اسلامی کے لئے منعکس کریں، عیب و نقص کو اس کے سامنے بیان کریں در عین حال کہ اس کے دست و بازو بھی بنیں۔
انہی آشتیان کے امام جمعہ آقائے آشتیانی سے یہ واقعہ نقل ہوا ہے کہ وہ کہتے تھے ایک وقت ایسا آیا کہ میں نے اپنے ارد گرد مسائل ہی مسائل دیکھے ، اس لئے امام کے دفتر جانے کے لئے اُٹھ کھڑا ہوا کہ جاکر ان مسائل و مشکلات کو وہاں پیش کروں۔ جب امام کے دفتر پہنچا تو دفتر کے ایک صاحب نے مجھ سے کہا کہ آپ امام کی خدمت میں جا رہے ہیں تو امام کے حال کا خیال کرنا اور صرف ایسی باتیں کرنا جن سے وہ خوش ہوجائیں، اور خبردار ایسی کوئی بات نہ کرنا جس سے وہ پریشان ہوجائیں، اگر امام خود آپ سے حالات کے بارے میں دریافت کریں تو کہنا کہ الحمد للہ حالات بہت اچھے ہیں اور عوام آپ کے لئے دعاگو ہے، وہ سب خوش ہیں اور کسی قسم کی کوئی پریشانی نہیں ہے اور۔۔۔ یہ سن کر انہوں نے کہا تھا کہ میں تو یہاں آیا ہی اس لئے ہوں کہ مشکلات کو بیان کرو۔ یوں آقائے آشتیانی کچھ کہے سنے بنا  وہاں سے واپس چلے آئے تھے۔
یہ تھے اس وقت کے حالات۔ شاید میں ہی وہ واحد آدمی تھا جو کچھ مشکلات اور خامی خرابیوں کے بارے میں امام کو آگاہ کرنے کی جرات کرتا تھا۔ میری شروع  ہی سی یہ عادت رہی ہے کہ اگر کوئی بات مجھے کھٹکتی تو صاف الفاظ میں اُن کے سامنے بیان کر دیتا تھا۔ آیت اللہ بروجردی کے ساتھ بھی میرے روابط اسی قسم کے تھے اور اُن سے بھی میں بلاجھجک گفتگو کرتا تھا۔ پیغمبر اکرمؐ اور امیر المومنین علیؑ کے ساتھ لوگ کھل کر اپنی بات کر سکتے تھے، ہم کیوں کسی کی ایسی ہوا باندھیں کہ اگر کسی کے ذہن میں کوئی اعتراض یا اشکال ہو تو وہ کھل کر اُسے بیان نہ کر سکے؟! میں اسے اپنی ذمہ داری سمجھتا تھا۔ میری نظر میں گناہگار  وہ لوگ ہیں جو خرابیوں اور بے انصافیوں کے سامنے خاموشی اختیار کرتے ہیں، وہ نہیں جو صحیح طریقے سے اور خیرخواہی کی نیت سے اپنی بات کو بیان کرتے ہیں۔
س: البتہ اب تو یہ واقعہ گزر چکا ہے، لیکن اگر اُس وقت جنابعالی خط لکھنے کی بجائے امام (رہ) سے بالمشافہ ملاقات کرتے یا ذمہ دار حکام سے رابطہ کرکے اس مسئلے کی پیروی کرتے تو بہتر نہ ہوتا؟
ج: البتہ اس وقت میں نے آقائے موسوی اردبیلی کو پیغام بھیجا تھا جس کی تفصیل میں پہلے ہی بیان کرچکا ہوں، بعض حکام امام سے بات کرنے کی جرات نہیں رکھتے تھے اس لئے آکر مجھ سے ملتجی ہوجاتے تھے، بالمشافہ ملاقات کی سہولت بھی اُس وقت میسر نہ تھی اور اس کا فائدہ بھی کچھ نہ تھا کیونکہ مرصاد آپریشن کے بعد ماحول میں تناؤ اور کشیدگی بہت زیادہ تھی، البتہ اب یہ سب اگر و مگر بے فائدہ ہے۔
س: ایک اور سوال جو بہت سوں کے ذہنوں میں کھٹک رہا ہے وہ یہ ہے کہ پھانسیوں سے مربوط امام کا حکم نامہ کیا واقعاً اِن کی طرف سے صادر ہوا تھا اور خود اُن کی لکھائی ہے  یا یہ حکم نامہ بھی بعض دیگر حکم ناموں کی طرح ہے جو کہ امام کی زندگی کے آخری ایام میں ان کے نام سے شائع ہوئے اور ان کا معظم لہ سے منسوب ہونے میں شک و تردید پایا جاتا ہے؟ اور اس فرض کے ساتھ کہ اگر یہ حکم نامہ امام کی جانب سے صادر ہوا ہے تو آپ کے خیال میں کس قسم کی رپورٹیں اور کس قسم کا ماحول اس حکم نامہ کے لکھے جانے کا سبب بنا؟
ج: واقعیت امر یہ ہے کہ امام کی جو شناخت مجھے حاصل ہے  اور جو میرا ان کے ساتھ سالہا اٹھنا بیٹھنا  رہا ہے اسے مدنظر رکھتے ہوئے  میں کبھی بھی قطعی طور پر نہیں کہہ سکتا کہ یہ حکم نامہ  امام  ہی کی طرف سے صادر ہوا ہے۔ میں سالوں ان کے ساتھ رہا ہوں اور وہ ایک با تقویٰ اور عارف قسم کے انسان تھے اور اس قسم کے مسائل میں احتیاط کرتے تھے اور کسی پر ظلم ہونے پر راضی نہیں ہوتے تھے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد بھی وہ اپنی تقریروں میں قیدیوں کے حقوق  کی رعایت پر تاکید کرتے رہتے تھے، یہاں تک کہ ہفتم تیر ماہ کے حادثے کے بعد باوجود اس کے کہ حالات سخت کشیدہ تھے، انہوں نے اپنی تقریر میں قیدیوں کے حقوق پر تاکید کرتے ہوئے ذمہ دار حکام سے کہا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ قیدیوں سے انتقام لینے کے درپے ہوجائیں۔ مگر کیا ہوا جس کی وجہ سے اُن آخری دنوں میں ان کی طرف سے یہ حکم نامہ صادر ہوا، یا یہ کہ یہ حکم نامہ ان کی اپنی دستی تحریر تھی  یا نہیں، میں کوئی حتمی فیصلہ دینے سے قاصر ہوں اور یہ مسئلہ میرے لئے بھی مبہم اور باعث تعجب ہے۔
البتہ ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ مرحوم امام بھی ایک جائز الخطا انسان تھے اور ان آخری دنوں میں بڑھاپے اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے وہ لوگوں سے بالکل کٹ کر رہ گئے تھے اور بعض لوگ جو رپورٹ چاہتے انہیں دے دیتے تھے۔ بنیادی طور پر، مملکت کے انتظام و انصرام  کا یہ سسٹم کہ جس میں تمام اختیارات ایک شخص کے ہاتھ میں متمرکز ہوجائیں، اگرچہ وہ شخص باتقویٰ ترین افراد میں سے ہو، ایک صحیح طریقہ نہیں ہے اور اس کا انجام بہت بڑی غلطیوں کی صورت میں ظاہر ہوگا۔ میرا خیال ہے کہ اگر یہ حکم نامہ امام نے خود لکھا ہوگا تو اس کے پیچھے یقیناً مختلف افراد کی غلط اور خلاف واقع رپورٹوں کا اثر کارفرما رہا ہوگا۔
امام کو غلط رپورٹ دینے پر مجبور کرنا
س: حضرتعالی نےحالیہ  اکیس بہمن 1371 شمسی کی ایک گفتگو میں تہران کے ایک عالم کے قول سے ایک واقعہ نقل کیا تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ خفیہ ایجنسی کے بعض کارندوں نے  ان سے گفتگو کے دوران کہا تھا کہ 1367 اور 1368 کے واقعات میں انہیں مجبور کیا گیا تھا کہ وہ یہ رپورٹ بنا کر امام کو  پیش کر یں کہ حضرتعالی  کا گھر منافقین کے زیر اثر ہے اور آپ مختلف معاملات میں ان سے مشورہ کرتے ہیں، اگر مناسب سمجھیں تو اس بارے میں کچھ وضاحت دیجئے اور اُس عالم کا نام بھی بتادیجئے جس نے یہ واقعہ نقل کیا تھا۔
ج: اصل واقعہ کچھ اس طرح ہے کہ آقائے حاج شیخ غلام حسین ایزدی ایک شام تہران میں کسی فیملی دعوت میں شریک تھے، آقائے ایزدی  نقل کر تے تھے کہ آقائے محمدی گیلانی ، جوکہ اس دعوت میں شریک تھے، ان سے کہنے لگے کہ ہم فلاں شخص کی صورت کو ترس گئے ہیں، ہم ایک عرصے تک ان کے شاگرد رہے ہیں، اس کے بعد کہنے لگے: "خفیہ کے چند افسران بالا مجھ سے کہہ رہے تھے کہ اُن واقعات میں ہمیں یہ جھوٹی شہادت دینے پر مجبور کیا گیا کہ فلاں شخص  کا گھر منافقین کا اڈہ ہے اور یہ صاحب منافقین سے ہدایات لیتے ہیں، یہ جھوٹی رپورٹ تیار کرنے پر آج ہم سخت پشیمان ہیں۔" اس واقعے کو آقائے شیخ غلام حسین ایزدی نے آقائے محمدی گیلانی کے قول سے میرے لئے نقل کیا۔
اسی طرح آقائے محفوظی سے بھی نقل ہوا ہےکہ آقای محمدی گیلانی نے اسی واقعہ کو ایک اور جگہ پر بھی سنایا ہے۔ بعد میں ہم نے ایک اور ذریعے سے سنا کہ اس راز کو فاش کرنے کے جرم میں حکام بالا نے ان چند افراد کو، کہ ظاہراً تین لوگ تھے،خفیہ کی نوکری سے نکال باہر کر دیا  اور ساتھ ہی ان کی ناگ رگڑوانے کے لئے ایک سنگین قسم کا کیس ڈال کر ان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے بند کر دینا چاہتے تھے کہ  خفیہ ہی کے اندر اُن کے بعض دوستوں نے بیچ بچاؤ کرکے ان کی جان تو بچالی، مگر کام سے وہ برطرف کر دیئے گئے۔ الغرض، جیسا کہ بیان ہوا کچھ ایسا واقعہ ہو گیا تھا۔ البتہ آقائے محمدی گیلانی کا نام اس وقت میں نے اس لئے نہیں لیا تھا کہ شاید وہ اس بات سے راضی نہ ہوں کہ اس ماجرا میں ان کا نام آجائے، لہذا میں نے اُس وقت کی اپنی گفتگو میں اجمالی طور پر تہران کے ایک عالم کا حوالہ دیا تھا۔
آیت اللہ خمینی: آپ اسلام کے بلند مینار ہیں
س: گویا حضرتعالی نے  ملک کے تینوں اداروں  کے سربراہان اور وزیر اعظم کی موجودگی میں امام مرحوم سے ایک اہم ملاقات کی تھی، اس ملاقات میں انہوں نے آپ کی بے حد عزت افزائی کی تھی، براہ کرم اس ملاقات کی تفصیل سے آگاہ کیجئے۔
ج: ہماری ملاقاتوں میں سے ایک خصوصی ملاقات میں انہوں نے کہا تھا: "میں نے سنا ہے کہ جب امریکا کا صدر کوئی بات کرنا چاہتا ہے تو چھ سو افراد اُسے چیک کرتے ہیں، جب ہم کوئی بات کرتے ہیں تو وہ بات پوری دنیا میں پھیل جاتی ہے۔" وہ یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ ہمیں اپنی تقریروں میں ہر بات بہت سوچ بچار کے بعد کرنی چاہئے۔
میں نے کہا: "آپ بجا فرما رہے ہیں، لیکن کیا حضرتعالی خود یہ کام کرتے ہیں؟"
انہوں نے کہا: "نہیں، میں بھی غلطی کر جاتا ہوں"
ایک اور ملاقات  جس میں سربراہان مملکت بھی موجود تھے میں نے آقائے رے شہری کے کرتوتوں اور انہوں نے جو انٹرویو دیا تھا اس کے بارے میں بات کی اور اُن سے کہا: "انہوں نے ہمارے تمام مدارس کو، کہ جس میں محنت سے  پڑھنے والے، محاذوں پر جانے والے اور آپ کی تقلید کرنے والے طلبا  رہتے ہیں، فساد کے مراکز کہا ہے اور ۔۔۔"
خلاصہ، میں چونکہ ناراض تھا اس لئے میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا  کہ یہ سب کچھ کیوں ہو رہا ہے۔
وہ مجھ سے عذر خواہی کرتے ہوئے کہنے لگے: "آپ اسلام کے اونچے مینار ہیں، آپ مجھے معاف کردیں، غلطی ہوگئی ہے اور ۔۔۔"
اسی ملاقات کے بعد کی بات ہے کہ احمد آقا مجھ سے کہنے لگے: "امام نے آج تک کسی سے عذر خواہی نہیں کی ہے۔"
میں نے جواب دیا: "اس عذر خواہی کا کیا فائدہ؟ آقائے رے شہری نے ٹی وی اور اخبارات میں ہمارے خلاف خوب پروپیگنڈا کیا، ہمارے مدرسوں  کو خوب رسوا کیا، لوگوں کی حیثیت کو خراب کر دیا، ہمارے دوستوں اور شاگردوں میں سے بہت سے افراد کو سید مہدی کے ساتھ رابطے کے الزام میں گرفتار کرکے جیلوں میں ڈال دیا  گیااور اب  یہاں امام فرما رہے ہیں کہ معاف کیجئے غلطی ہوگئی! اب اس کا کیا فائدہ؟"
اسی طرح ایک اور ملاقات میں، میں نے امام سے کہا: "مجھے اجازت دیجئے کہ میں طالبعلمی اور درس و بحث کے لئے خود کو وقف کروں، آقایان کا نشانہ میں ہوں، سید مہدی صرف بہانہ ہے۔" مزید کہا: "لاَ يُكَلِّفُ اللّهُ نَفْساً إِلاَّ وُسْعَهَا ، میں یہ نہیں کرسکتا کہ اپنے عہدے پر برقرار رہوں اور آقائے رے شہری اور اُس جیسے دوسرے لوگوں کے کاموں کا توجیہ کنندہ بنا رہوں، کچھ نہ کہوں اور خاموش رہوں۔"
انہوں نے کہا: "نہیں، آپ اپنے عہدے پر برقرار رہیں اور کنارہ کشی اختیار نہ کریں۔"
گویا کچھ لوگوں نے یہ تہیہ کر رکھا  تھا کہ میں باعزت طریقے سے اپنے عہدے سے سبکدوش نہ ہوں، بلکہ بعد میں دوسروں کی سازشوں کے ذریعے بے آبروئی کے ساتھ برطرف کیا جاؤں۔ سنا ہے کہ آقائے جوادی آملی نے ایک دفعہ کہا تھا کہ جب ہم نے چاہا کہ استعفیٰ دے کر سپریم جوڈیشل کونسل سے الگ ہوجائیں تو اُس وقت ہمیں ایسا کرنے نہیں دیا گیا لیکن کچھ دنوں کے بعد انہوں نے خود ہی ہمیں برطرف کر دیا۔
میں کتنی دفعہ کہہ چکا ہوں کہ میں اس عہدے سے استعفیٰ دینا چاہتا ہوں، مگر وہ کہتے رہے کہ نہیں، استعفیٰ نہ دیں جب تک ہم خود آپ کو برطرف نہ کریں۔ گویا جمہوری اسلامی میں کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ  اپنی مرضی سے کسی عہدے سے الگ ہوجائے، یہاں تک کہ وہ لوگ بے عزت کرکے اُسے برطرف کردیں۔
بشکریہ جرس جنبش راہ سبز


کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں