بدھ، 16 ستمبر، 2015

فکر کے جرم میں سزائے موت

ڈاکٹر محمد علی طاہری کےلئے سزائے موت کے عدالتی حکم کا جائزہ

فساد فی الارض کے جرم میں محمد علی طاہری کے لئے سزائے موت کا حکم گزشتہ چند سالوں میں متنازعہ  ترین عدالتی فیصلوں میں سے ایک شمار ہوتا ہے۔

محمد علی طاہری کی عرفان کی کلاسیں کچھ سال پہلے تک تہران یونیورسٹی اور تہران میڈیکل یونیورسٹی میں باقاعدہ طور پر منعقد ہوتی رہی ہیں، اُن کی کتابیں حکومت کی اجازت سے چھپتی تھیں اور وہ خود بھی عوامی اجتماعات میں لیکچر دیتے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یا اُن کے سامعین و مخاطبین کی تعداد بڑھنے کے ساتھ حکومت جمہوری اسلامی کی طرف سے انہیں اتنی مشکلات اور محدودیتوں کا سامنا کرنا پڑا  کہ اگست 2010 سےوہ اپنی سرگرمیاں روکنے اور عرفان کی  کلاسوں کو تعطیل کرنے پر مجبور ہوا۔

انہیں  پہلی بار سن 2010 میں ملکی سلامتی کے خلاف اقدام کے الزام میں گرفتار کرکے 68 دن کے لئے انفرادی سیل میں رکھا گیا۔ سن 2011 میں ارتداد، محاربہ، مقدسات کی توہین، فساد فی الارض اور توہینِ رسالت کے الزام میں دوبارہ گرفتار کرکے جیل روانہ کر دیا گیا۔ 11 مئی2011میں آقائے طاہری کو تیسری مرتبہ گرفتار کیا گیا اور  انقلاب کورٹ کی طرف سے مقدسات کی توہین، علم طبابت  اور مریضوں کے علاج میں غیر قانونی مداخلت، نامحرم کو چھونے کا  غیر شرعی فعل انجام دینے، علمی عنوانات (ڈاکٹر و انجینئر ) کا  غیرقانونی استعمال کرنے، کتابوں اور تالیفات کے ضالہ ہونے کے الزام میں پانچ سال قید اور نوسو ملین  تومان جرمانہ اور 74 کوڑے سنائے گئے۔ طاہری کو جیل میں اعتراف جرم لینے کے لئے بے حد دباؤ اور ٹارچر کا نشانہ بھی بنایا گیا۔

البتہ جمہوری اسلامی ایران  میں دین یا حکومتی دین سے متفاوت انداز فہم رکھنے کی وجہ سے لوگوں پر مقدمہ چلانا اور روانہ زندان کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ تازہ عیسائی مذہب اختیار کرنے والوں، بہائیوں، گُنابادی درویشوں اور اہل سنت وغیرہ سب پر مقدمہ اسی بنیاد پر چلایا جاتا رہا ہے۔

عام طور پر حکومتِ ایران بین الاقوامی معاہدوں میں، کہ جن کا وہ ممبر ہے (جیسے بین الاقوامی معاہدہ برائے عوامی و سیاسی حقوق کہ جس کی دفعہ 18 میں واضح طور پر فکر، ضمیر اور مذہب کی آزادی پر تاکید کی گئی ہے) اپنے قول و قرار سے  فرار کرنے کی خاطر  ان مقدمات  کو امن امان کے عنوانات جیسے ملک کی سلامتی کے خلاف اقدام، نظام کے خلاف پروپیگنڈا اور جاسوسی  وغیرہ کے تحت چلاتے  رہے ہیں؛ جیسا کہ آقائے طاہری کو پہلی بار ملکی سلامتی کے خلاف اقدام کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا لیکن بعد کے الزامات جیسے  ارتداد، مقدسات کی توہین وغیرہ سب عقیدتی ہیں۔ 29 جولائی 2015ء کو آقائے طاہری کے لئے موت کی سزا سنائی گئی۔ صادرشدہ حکم کے خلاف کی گئی اپیل کی ابھی تک شنوائی نہیں ہوئی ہے۔

آقائے طاہری نے اب تک بارہا یہ اعلان کیا ہے کہ انہوں نے اپنی تعلیمات میں اصول دین کے کسی رکن کا انکار نہیں کیا ہے۔ لیکن کیا آقائے طاہری کے لئے سزائے موت کا حکم شرعی لحاظ سے قابل توجیہ ہے؟

قرآن میں دین قبول کرنے میں جبر نہ ہونے کے متعلق بہت ساری آیتیں ملتی ہیں۔ ان آیتوں میں سے سورہ بقرہ کی آیت  256 کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے جس میں آیا ہے: ”دین میں کوئی جبر نہیں ، بتحقیق ہدایت اور گمراہی میں فرق نمایاں ہوچکا ہے۔“ اس آیت کی مشابہ آیتیں قرآن میں کم نہیں ہیں، لیکن ان کے مقابلے میں ایسی آیتیں بھی ہیں جو عقیدہ و مذہب کی آزادی سے متصادم نظر آتی ہیں۔  بعض آیتوں جیسے سورہ توبہ کی آیت 29 میں ہے : ”اہل کتاب میں سے جو اللہ اور روز آخرت پر ایمان نہیں لاتے اور اللہ اور اس کے رسول نے جو کچھ حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں ٹھہراتے اور دین حق قبول نہیں کرتے ان لوگوں کے خلاف جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ذلیل ہوکر اپنے ہاتھ سے جزیہ ادا کریں۔“

ان آیات کی تفسیروتفہیم سے متعلق جو نکتہ بہت سارے دینی نواندیش محققین بیان کرتے ہیں یہ ہے کہ ان آیات کی اجتماعی و تاریخی پس منظر کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ مثلاً مذکورہ بالا مثال میں پورا سورہ پڑھنے سے یہ بات عیاں ہوجاتی ہے کہ یہ آیت جنگی حالات میں نازل ہوئی ہے۔ اس زمانے میں مسلمان معاشرہ بیحد نوخیز تھا اور ارتداد اس زمانے میں دشمن  کی صفوں میں شامل ہونے جیسا تھا اور درحقیقت  یہ عمل امن و امان میں خلل ڈالنے اور ملک سے غداری کے جرم کے مترادف شمار ہوتا تھا۔ لہذا ارتداد، عقیدے سے مربوط جرم سے زیادہ، امن سے مربوط ایک جرم حساب ہوتا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا نکتہ ہے جسے بعد میں آنے والے علمائے دین نے مدنظر نہیں رکھا۔

بہت سارے دینی نواندیش محققین معتقد ہیں کہ اسلام میں ارتداد کے لئے (عقیدتی جرم کے معنی میں) کسی قسم کی دنیوی سزا مقرر نہیں ہے اور تاریخ اسلام میں کبھی بھی کسی شخص کو پیغمبرخدا (ص) اور دیگر معصومین(ع) کے توسط سے ارتداد کے جرم میں سزا نہیں دی گئی ہے۔ دینی نو اندیش، ڈاکٹرمحسن کدیور نے اپنے تحقیقی رسالہ بنام ”ارتداد کی سزا اور آزادیٔ مذہب“ میں اس حوالے سے لکھا ہے:

”کسی بھی شخص کو صرف ارتداد کے جرم میں رسول اکرم(ص) ، امیرالمومنین(ع)  اور دیگر ائمہ(ع) کے حکم سے  موت کی سزا نہیں دی گئی ہے اور سزا یافتہ مجرمین دوسرے جرائم میں بھی ملوث تھے۔“

 ڈاکٹرکَدِیوَر کا اشارہ مرحوم آیت اللہ منتظری کی کتاب ”دینی حکومت اور انسانی حقوق“ کی طرف ہے جس میں آیا ہے:

”پیغمبر اکرمؐ اور حتیٰ ائمہؑ کے زمانے میں میں ارتداد کا موضوع عقیدہ بدلنے یا اس کا اظہار کرنے  کو شامل نہیں ہوتا تھا“ اور ”بعض تاریخی کتابوں کے مطابق جن لوگوں کے لئے سزائے موت کا حکم پیغمبر اکرمؐ کے توسط سے صادر ہوا اور اُن میں سےبعض مارے بھی گئے، اُن کا قتل نہ  ناگہانی قتل  کا نمونہ تھا اور نہ ہی صرف کفر یا ارتداد کی خاطر، بلکہ سنگین جرائم میں ملوث ہونے یا مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک ہونے اور انہیں عملی طور پر ایذاء پہنچانے یا  دشمنوں کے لئے جاسوسی کرنے یا دیگر امور  کی خاطر تھا  کہ جن کا ذکر آئے گا۔“

دینی امور کے بعض محققین جیسے مہدی خلجی وغیرہ معتقد ہیں کہ پوری تاریخ میں ارتداد کا حکم سیاسی مقاصد  کے حصول (مخالفین کی سرکوبی اور اقتدار کو تقویت بخشنے) کے لئے صادر ہوتا رہا ہے اور تکفیر ہونے والے افراد نہ خود کو کافر سمجھتے تھے اور نہ ہی کسی عدالت میں انہیں اپنے موقف کا دفاع کرنے کا موقع ملا ہے۔ خلجی کے بیان کے مطابق روایتی فقہ کے بنیادی اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ لازم ہے تکفیر ہونے والا شخص  یہ جانتا ہو کہ جو کچھ اس نے کہا ہے کفر آمیز ہے اور اگر کوئی کفر گوئی کے ارادے کے بغیر، کافرانہ سخن منہ سے ادا کرے، شرعاً اسے کافر نہیں کہا جا سکتا۔

خلجی نمونے کے طور پر سلمان رشدی کے فتوائے  ارتداد کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس فتویٰ کو آیت اللہ خمینی کی جانب سے مسلمانوں کی توجہ کو اپنی طرف مبذول کرانے کی ایک کوشش قرار دیتےہوئے کہتے ہیں:

”سلمان رشدی کی کتاب کا ایران میں ترجمہ نہیں ہوا تھا اور عام لوگ اس کتاب کے انگریزی ایڈیشن تک نہ دسترسی رکھتے تھے اور نہ  ہی اسے  پڑھ سکتے تھے۔ انہی وجوہات کی بنا پر اس بات کا احتمال بسیار کم ہے کہ آیت اللہ خمینی نے خود بھی وہ کتاب پڑھی ہو۔ سلمان رشدی کو قتل کرنے کا فتویٰ ایک ایسے وقت میں صادر ہوا جب آیت اللہ خمینی نےایران عراق کی آٹھ سالہ جنگ کو خاتمہ دینے کے لئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادکو ”جامِ زہر“ پینے سے تعبیر کرتے ہوئے قبول کیا تھا۔ اسی طرح وہ آیت اللہ منتظری کو قائم مقامی کے عہدے سے برطرف کرنے کی تیاریوں میں تھے۔ اپنے قریب المرگ ہونےکو بھی جانتا تھا اس لئے آئین میں ترمیم  کرنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دینے  اور اپنے جانشین کے تقرر کے لئے راہ ہموار کرنے کی کوششوں میں لگا ہوا تھا۔ ملکی معیشت نہایت خستہ حالت میں تھی۔ آیت اللہ خمینی کا چہرہ ایک خستگی ناپذیر رہبر اورمسلمانوں کی رہبری اور قدس کی آزادی کا دعویٰ کرنے والے جنگی سپہ سالار کی حیثیت سے  نہایت  دھندلا اور کمزور ہوچکا تھا۔ دو مراجع تقلید کے درمیان  چھڑی ہوئی خاموش جنگ نے سیاسیوں، روحانیوں اور مسلح افواج کودو حصوں میں بانٹ رکھا تھا، ایرانی معاشرہ بھی سرگردانی کی حالت میں تھا۔ ان سارے حالات کے تناظر میں اندرونی اتحاد و یگانگت کو برقرار رکھنے اور اسی طرح تمام دنیا کے مسلمانوں کی توجہ کو اپنی جانب مبذول کرانے کے لئے ایک ”دھماکہ“ کرنے کی ضرورت کا شدت سے احساس ہورہا تھا اور سلمان رشدی کے قتل کا فتویٰ اس  کام کو بخوبی انجام دے سکتا تھا۔“

محمد علی طاہری کا کیس ، سلمان رشدی کے ساتھ قابل مقائسہ نہیں لیکن بہرحال اس قسم کے احکامات  کے پیچھے سیاسی مقاصد پوشیدہ ہونے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔


باتشکر از نرگس توسلی، ایران وایر

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں