جمعرات، 8 اکتوبر، 2015

نظام ولایت فقیہ جمہوریت کا دشمن

نظام ولایت فقیہ اور جمہوریت کا تقابلی جائزہ


جمہوریت کی خصوصیات اور امتیازات سے نظام ولایت فقیہ فاقد ہے
نظام ولایت فقیہ کم از کم اُن دس بنیادی خصوصیات سے بے بہرہ ہے جو جمہوری نظام میں پائی جاتی ہیں

نظام ولایت فقیہ جمہوریت سے متصادم ہے۔ اس نظام میں جمہوریت کی درج ذیل دس خصوصیات کا نام و نشان بھی نہیں ملتا:

اوّل :      جمہوری نظام میں ایک ملک کے تمام شہری، اجتماعی و سیاسی امور میں مساوی ہوتے  ہیں اور کسی کو کسی پر فوقیت وبرتری حاصل نہیں ہوتی، لیکن حکومت ولایت فقیہ میں عوام ولی فقیہ کے ہم پلہ نہیں ہوتے۔ اس نظام میں ولی فقیہ کو زمین پر خدا کا نمائندہ اور مسلمانوں کے امور کا ولی اور اس کی بلاچون و چرا اطاعت  کو واجب سمجھا جاتاہے۔

دوّم :    جمہوری نظام میں عوام کو اجتماعی امور میں حقدار، بالغ نظر، سنجیدہ اور باشعور سمجھا جاتا ہے، لیکن نظام ولایت فقیہ میں عوام کو اجتماعی امور میں ناپختہ، ناسنجیدہ اور فکری بلوغت سے فاقد سمجھا جاتا ہے۔ اس نظام میں عوام کسی قسم کا حق نہیں رکھتے یا اگر رکھتے بھی ہیں تو فکری بلوغت کی ناپیدگی کی وجہ سے اپنے حق کو بحال کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔

سوّم :   جمہوری سسٹم میں حکمران عوام کا ”وکیل“ ہوتا ہے کہ جسے منصوب یا معزول کرنا عوام کے اختیار میں ہوتا ہے، لیکن نظام ولایت میں حکمران عوام کا ”ولی“ ہوتا ہے جسے منصوب کرنا یا معزول کرنا عوام کے اختیار میں نہیں ہوتا۔ ولی فقیہ کسی بھی عوامی ادارے کے سامنے جوابدہ نہیں ہوتا، بلکہ اس کے برعکس عوام ہمیشہ ولی فقیہ کی اتباع کرنے اور اس کے نظریات کی پیروی کرنے کے پابند ہوتے ہیں۔

چہارم : جمہوری حکومتوں میں حکمران عوام کی طرف سے منتخب ہوتا ہے، لیکن نظام ولایت میں حاکم کو منصوب من اللہ سمجھا جاتا ہے اور اس کے شرعی جواز  کو عوام الناس کی طرف سے انتخاب کا محتاج نہیں سمجھا جاتا۔ لہذا  اس نظام کا لازمہ ”انتخابی حکومت“ کی بجائے ”انتصابی حکومت “ہے۔ اس نظریے کے مطابق جائز حکومت صرف وہ حکومت ہے جو خدا کی جانب سے منصوب ہو۔ غیر انتصابی حکومت طاغوت، غیرشرعی اور شرکِ ربوبی ہے۔

پنجم :   جمہوری نظاموں میں کسی بھی حکمران کی حکمرانی کا دورانیہ اور جغرافیائی حدود محدود  اور معین ہوتے ہیں، لیکن نظام ولایت میں حکمران  کی حکمرانی  دائمی اور عمر بھر کے لئے  ہوتی ہے۔  یہ ولایت جغرافیائی حدود کے اندر محدود نہیں ہوتی  اور نہ صرف مسلمان بلکہ دنیا کے سارے لوگ ولی فقیہ  کی اطاعت کے پابند ہوتے ہیں۔

ششم :  جمہوری نظام کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ حکمران عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے، عوام کو مواخذہ اور احتساب کا حق ہوتا ہے، مگر نظام ولایت فقیہ میں ولی فقیہ احتساب و مواخذہ سے بالاتر  ہوتا ہے۔ ولی فقیہ اگرچہ اجتماعی امور میں لوگوں کی مصلحت کی رعایت کرنے کا پابند  ہوتا ہے، مگر مصلحت کی تشخیص دینے والا وہ خود یا اُس کی طرف سے منصوب شدہ افراد ہوتے ہیں۔ عوام پر ولایت فقیہ ایک مقدس منصب ہوتا ہے۔  حکومت ولائی  کا لاینفک لازمہ اجتماعی امور میں عوام کی بے دخلی ہے۔

ہفتم :   جمہوری حکومتوں میں حکمران کے اختیارات محدود ہوتے ہیں اور حکمران قوانین کی رعایت کا پابندہوتا ہے، لیکن نظام ولایت فقیہ میں، ولی امر قانون سے بالاتر ہوتا ہے۔ ولی فقیہ کی مطلقہ حکومت مافوق قانون ہوتی ہے، اصولاً آئین اور عام قوانین ولی فقیہ کی اجازت سے وجود میں آتے ہیں، لہذا ماتحت ہرگز مافوق کو پابند و مقید نہیں کر سکتا۔ تمام قوانین اور اجتماعی ادارےشرعی حیثیت کے لئے رہبر کی تائید و تصدیق کے  محتاج ہوتے ہیں۔ جب تک ولی فقیہ تائید نہ کرے لوگوں کی رائے اور اُن کے نظریات ہر قسم کی شرعی حیثیت و اعتبار سے فاقد ہوتی ہے۔

ہشتم :  نظام ولایت فقیہ میں حکمران کے لئے لازمی شرط فقاہت  اور مرد ہونا ہے۔ عورت ولایت شرعی سے فاقد ہوتی ہے، دوسرے لفظوں میں عورتیں ولایت شرعی کا منصب سنبھالنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں، اگرچہ وہ درجہ اجتہاد پر ہی فائز کیوں نہ ہوں، جبکہ جمہوری نظاموں میں حکمران کے لئے فقیہ اور مرد ہونے کی کوئی پابندی نہیں ہے، یہاں عوام کی رائے ہی فیصلہ کنندہ ہوتی ہے اورحکومت کی طاقت کا سرچشمہ اور بنیاد عوام کی خواہش  ہوتی ہے۔

نہم :    دنیا کے جمہوری نظاموں میں، حکومت کی حیثیت عوام اور حکمران کے درمیان ایک قسم کے معاہدے کی ہوتی ہے، لیکن نظام ولایت میں اجتماعی امور کے شعبے حق اللہ ہیں نہ کہ حق الناس اور عوام اس شعبے کو اس کے اہل یعنی شارع کی طرف  سے منصوب فقیہان کے حوالے کرنے کے پابند ہیں۔ عوام پر فقہاء کی شرعی ولایت اجباری ہے نہ کہ اختیاری، یعنی فقہاء چاہیں یا نہ چاہیں شارع مقدس کی طرف سے وہ معاشرے کے اجتماعی امور کی باگ ڈور سنبھالنے کے پابند ہیں۔ عوام بھی ولی فقیہ کی بیعت کرنے کے پابند ہیں۔

دہم :    جمہوری نظام میں انسانوں  کے اجتماعی عقل کو معاشرے کے نظم و نسق  چلانے میں کلیدی کردار کا حامل سمجھا جاتا ہے، جبکہ نظام ولایت فقیہ میں ولی فقیہ کی رائے آخری ہوتی ہے۔اس طرزِنگاہ کے مطابق اولاً عوام خیر و شر میں تمیز کرنے کے قابل نہیں ہوتے اور اپنے نفع نقصان  کا ادراک نہیں رکھتے، ثانیاً آسانی سے شیاطین کے تحت تاثیر آکر فریب کھاتے ہیں اور گمراہ ہوجاتے ہیں۔ اس زاویہ نگاہ سے اگرچہ لوگ انفرادی شعبوں میں فکری لحاظ سے بالغ ہوتے ہیں، مگر اجتماعی امور کے شعبوں میں فکری بلوغت سے محروم  ہوتے ہیں۔اجتماعی امور کے شعبوں میں عوام الناس صرف ولی فقیہ کی پیشگی اجازت یا بعد میں تائید سے تصرف کر سکتے ہیں۔

مجموعی طور پر نظام ولایت فقیہ کے مطابق پسندیدہ حکومت، فقیہ سروری یا فقیہ کی سلطنت یا شرعی سلطنت ہے اور اسے افلاطون کے حکیم حاکمی نظریہ کی صف میں قرار دیتے ہوئے فقیہ شاہی نام دیا جا سکتا ہے۔ البتہ اس قسم کی حکومتوں میں فقاہت اور اجتہاد کی شرط بہت جلد رقیق ہوکر مولویوں، ملاؤں کی حکومت میں تبدیل ہوجاتی ہے۔


کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں