جمعرات، 26 نومبر، 2015

رہبر معظم امام خامنہ ای کی زندگی کا ایک خوفناک راز

کیا ایرانی سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای روسی خفیہ ادارہ کے جی بی کا افسر ہے؟
فروری 2010ء میں روسی سرکاری ٹی وی RT نے اپنے ایک پروگرام میں یہ خبر دے کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ایرانی سپریم لیڈر سید علی خامنہ ایپیٹریس لومومبا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل افراد میں سے ایک ہے۔
اِن دنوں سوشل میڈیا میں خوب گردش کرنے والی باتوں میں سے ایک روسی صدر ولادمیر پوٹین کے حالیہ دورہ ایران کی رویداد اور اس کے پراسرار بیانات ہیں۔ روسی صدر کے بیانات کو ولایت فقیہ کے دیوانے خوب مزے لے لے کر شیئر کر رہے ہیں اور جی کھول کر داد دے رہے ہیں اور داد لے رہے ہیں۔ سوشل میڈیا پر گردش کرنے والے ایک بیان کے مطابق روسی صدر نے ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای کو عیسائے مسیح(ع) سے تشبیہ دیتے ہوئے ان کی خوب مدح سرائی کی ہے۔ 
یہ پراسرار بیان قابل تعجب ہے مگر ماضی کے کچھ واقعات کی طرف نظردوڑائیں تو پوٹین کی تعریف بجا نظر آتی ہے۔  اس کو فی الحال ایک "افواہ" ہی کہہ لیں جس کا کچھ لوگوں نے دعویٰ کیا اور روس کے بعض سرکاری و غیر سرکاری ذرائع نے اس راز سے پردہ اٹھایا۔ شنید ہے کہ ایرانی انقلاب سے پہلے آیت اللہ خامنہ ای صاحب اور روسی خفیہ ادارہ کے جی بی کے درمیان قریبی مراسم رہے ہیں اور اسی سلسلے میں وہ تربیت حاصل کرنے کے لئے خفیہ طور پرماسکو بھی گئے ہیں۔ نہ صرف ماسکو گئے ہیں بلکہ تقریبا 1 سے 4 سال کا عرصہ روسی خفیہ ادارہ کے جی بی کے زیرنگرانی چلنے والے ایک ادارے میں زیرتربیت رہے ہیں۔ 
فروری 2010ء میں روسی سرکاری ٹی وی RT نے اپنے ایک پروگرام میں یہ خبر دے کر دنیا کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا کہ ایرانی سپریم لیڈر سید علی خامنہ ایپیٹریس لومومبا یونیورسٹی کے فارغ التحصیل افراد میں سے ایک ہے۔
تفصیلات کے مطابق ”پیٹریس لومومبا یونیورسٹی“  جو کہ آجکل ”پیپلز فرینڈشپ یونیورسٹی“ کے نام سے مشہور ہے کی پچاسویں سالگر کے موقع پر رپورٹنگ کرتے ہوئے روسی ٹی وی RTنے یہ خبر دے کر سامعین  پر  بجلی گرادی کہ ایران کے سپریم لیڈر سید علی خامنہ ای اس یونیورسٹی میں زیر تربیت رہا ہے۔ مذکورہ چینل نے واضح الفاظ میں اس یونیورسٹی سے فارغ التحصیل ہونے والے دنیا کے بعض معروف افرادکی فہرست میں سید علی خامنہ ای کا نام بھی خصوصی طور پر لیا۔

البتہ روسی ٹی وی RTہی وہ واحد ذریعہ ابلاغ نہیں جو یہ خبر منظر عام پر لائی ہے، بلکہ اس سے پہلے روسی جریدہ ”کامرسینٹ“ نے بھی اپنے 25 نومبر 2003 کی اشاعت میں یہ خبر چھاپی تھی اور لکھا تھا کہ پیپلز فرینڈشپ یونیورسٹی کے گریجویٹس کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہے جوکہ 160 ممالک میں کام کر رہے ہیں۔ …ان افراد میں ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای بھی شامل ہے۔
روسی اخبار کامرسینٹ کا اصلی صفحہ

یہاں یہ سوال پیش آسکتا ہے کہ اس میں کیا برائی ہے اگر آقائے خامنہ ای اس یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہے۔ یہاں دو باتیں قابل ذکر ہیں:
 ایک یہ کہ آج تک سرکاری یا غیر سرکاری طور پر یہ بات منظر عام پر نہیں آئی ہے کہ سید علی خامنہ ای اس یونیورسٹی کا طالب علم رہا ہے۔ اگر آقائے خامنہ ای کے آفیشل ویب سائٹ پر ان کی حالات زندگی کا مطالعہ کریں تو کہیں بھی اس کا ذکر نہیں ملتا کہ آقائے خامنہ ای پیٹریس لوممبا یونیورسٹی میں زیر تربیت رہا ہے۔یعنی یہ ایک ٹاپ سکریٹ ہے جس کا منظرِ عام پر آنا ذیل میں بیان ہونے والی وجوہات کی بنا پر ایران کی اسلامی حکومت کی بنیادیں ہلاسکتا ہے اور خود آقائے خامنہ ای کے لئے نہایت خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔
روسی اخبار کامرسینٹ کا گوگل ٹرانزلیشن
پیٹریس لومومبا یونیورسٹی کیا ہے؟
دوسری بات یہ کہ پیٹریس لوممبا یونیورسٹی عام یونیورسٹیوں کی طرح نہیں ہے بلکہ اس کی بنیادپچاس سال پہلے خصوصی طور پر امریکہ اور یورپ کے  امپیریلزم کا مقابلہ کرنے کے مقصد کو مدنظر رکھتے ہوئے رکھی گئی تھی اور روسی خفیہ ادارہ کے جی بی کے زیرنگرانی یہ یونیورسٹی چلتی رہی ہے۔ یہاں تک کہ سابقہ سویت یونین کے سرکاری افسران نے اپنی بائیوگرافیوں میں باقاعدہ طور پر لکھا ہے کہ اس یونیورسٹی کا مقصد دنیا میں ایسے حکمران ایکسپورٹ کرنا تھا  جو سویت یونین کی حمایت اور امریکہ کی مخالفت کرے۔ مزید یہ کہ اس یونیورسٹی کے تمام تربیت دینے والے اور باقی  سٹاف دراصل کے جی بی کے افسران ہوتے تھے۔

کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں