جمعرات، 7 جنوری، 2016

سفارت خانوں پر حملہ، گزشتہ زمانےمیں ہو یا آج، ایک بہت بڑا جرم اور شرمندگی کا باعث ہے


اگر مجاہد فی سبیل اللہ اور عالم بلندپایہ شیخ باقر نمر کو  سزائے موت دینا سعودی حکومت کی ایک نامردانہ اور بزدلانہ حرکت ہے تو تہران اور مشہد میں سعودی عرب کے سفارت خانوں پر حملہ کرکے اسے تاراج کرنا بھی بزدلانہ، نامردانہ اور شرمناک جرم ہے۔
سفارت خانوں پر حملہ سفیروں اور سفارت خانوں کی قانونی حفاظت کی خلاف روزی اور ڈپلومیسی  کا مذاق اڑانا ہے۔ اگر کسی ملک کے حکمرانوں کے  طرزِعمل  پر اعتراض ہے، تو یہ اعتراض قانونی، اخلاقی اور شرعی طریقوں سے  کی جانی چاہئے۔ اگر غیرملکی سفارتخانوں پر حملہ ، توڑ پھوڑ اور آگ لگانے کایہ کام  خفیہ کے اہلکاروں  اورنیم فوجی اداروں کے ذریعے کیا گیا ہے، تو یہ جرم شدید تر اور رسوا کنندہ تر ہوگا۔ اس قسم کی کارروائیوں کے دوران ، جوکہ اپنوں کے توسط سے ہوتی ہیں، پولیس اور انتظامیہ ہمیشہ دیر سے کیوں پہنچتی ہے؟ اس پر طرہ یہ کہ  اگر ملکی یا بین الاقومی پریشر ان لوگوں کو عدالت تک  کھینچ لاتا ہے تو عدالت میں  ملزمین کے ساتھ ایسا نرم رویہ اختیار کیا جاتا ہے کہ سبھی پر یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے کہ  چاقو اپنے دستے کو کاٹنے والا نہیں۔
سفارتخانوں پر حملہ، خواہ آج خواہ گزشتہ زمانے میں، قانون و شریعت کی خلاف ورزی اور ہر مسلمان کے لئے باعث شرمندگی ہے۔ خواہ یہ سفارت خانہ امریکا کا ہو، انگلستان کا ہو یا ڈنمارک کا یا سعودی عرب کا۔  شیخ باقر النمر کو سزائے موت دینا ایک جرم ہے ، مگر تہران اور مشہد میں سعودی سفارت خانے پر حملہ بھی ایک معمولی جرم نہیں۔
سفارت خانوں پر حملے کی مذموم  روایت کی بنیاد 1979 میں اسلامی جمہوری ایران کے توسط سے امریکی سفارت خانے پر حملے کے ذریعے رکھی گئی۔  اگر اس بظاہر انقلابی اقدام کے  نقصانات کی سمجھ آتی تو آج ہم اس قسم کے افسوسناک اقدامات کا مشاہدہ نہ کرتے۔ جمہوری اسلامی ایران  نے دوسروں ملکوں میں موجود شیعہ اقلیت کے ساتھ منافقانہ رویہ کا مظاہرہ کیا ہے اور جس چیز کو وہ اپنے شہریوں  کے توسط سے دیکھنا نہیں چاہتا، ہمسایہ ملک سے توقع رکھتا ہے۔
یہ تو بتائیے کہ اگر  ایک ایرانی شیعہ مسلمان، نہ کوئی اور حتیٰ اقلیتوں سے تعلق رکھنے والا ایرانی، شیخ نمر کے جیسا  اعتراض ایرانی حکام پر کرتا، تو اس اعتراض کرنے والے کا کیا حال ہوتا؟!


کوئی تبصرے نہیں :

ایک تبصرہ شائع کریں